میری مطالعاتی زندگی کی کچھ یادیں
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی ایک اہم تحریر سے انتخاب
میں نے جب سے آنکھ کھولی اپنے گھر کے ایک بڑے حصے کو کتابوں کی الماریوں سے بھرا ہوا دیکھا۔ میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کتابوں کو اپنی سب سے بڑی پونجی سمجھا کرتے تھے۔ قلیل آمدنی کے باوجود اس کا اچھا خاصا حصہ کتابوں کی خریداری پر صرف فرماتے۔ یہاں تک کہ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کے مکان میں علمی اور دینی کتابوں کا اتنا ذخیرہ ہوگیا تھا کہ حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ بعض اوقات کسی مسئلے کی تحقیق اور کتابوں سے رجوع کرنے کے لیے حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کے پاس آیا کرتے تھے۔
اپنے چاروں طرف کتابیں تو نظر آتی تھیں اور حضرت والد ماجد رحمہ اللہ کا ان کے ساتھ شغف بھی روزانہ دیکھتا تھا اور اس کی بناء پر کتابوں سے انجانی سی محبت بھی معلوم ہوتی تھی اور اُن میں سے کئی کتابوں کے نام بار بار دیکھ کر یاد ہوگئے تھے۔ لیکن اُن کے مضامین کی معرفت اور اُن سے استفادہ اپنی پہنچ سے باہر تھا۔ یہاں تک کہ جب میں نے اپنی عمر کے دسویں سال میں عربی پڑھنے کا آغاز کیا تو اساتذہ بھی ایسے ملے جو کتابوں کے دلدادہ تھے۔
شروع میں یہ مطالعہ سیرتِ طیبہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات کی حد تک تھا۔۔۔ پھر جوں جوں درسِ نظامی کی تعلیم آگے بڑھتی گئی۔رفتہ رفتہ دوسری علمی کتابوں کو بھی دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ حضرت مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ کے پاس حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب رحمہ اللہ بکثرت تشریف لایا کرتے تھے اور جب دونوں جمع ہوتے تو ان کا موضوعِ گفتگو زیادہ تر مختلف کتابوں اور ان کے مؤلفین کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اس سے رفتہ رفتہ یہ جستجو پیدا ہوئی کہ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ نے گھر میں کتابوں کا جو ذخیرہ رکھا ہوا تھا۔ اُس سے راہ و رسم پیدا کی جائے۔
چنانچہ جب میں چودہ پندرہ سال کی عمر میں تھا، اُس وقت میرا یہ محبوب مشغلہ ہوگیا کہ چھٹی کے دنوں میں۔میں نے حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کی کتابوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کیا اور جس ترتیب سے الماری میں کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔اسی ترتیب سے میں کتابوں کو کھول کر دیکھتا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا کہ کتاب کا مصنف کون ہے؟
کس موضوع پر وہ لکھی ہوئی ہے اور اس کی فہرست مضامین پر بھی نظر ڈالتا۔اور فہرست مضامین میں جو موضوع دلچسپ نظر آتا۔ اس کو اپنی بساط کی حد تک پڑھنے کی بھی کوشش کرتا،یہاں تک کہ گھر کے کتب خانے کی ساری کتابوں کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل ہوگئیں۔پھر یہی کام میں نے دارالعلوم کے کتب خانے کے ساتھ بھی کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ آئندہ جب کسی مسئلے کی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت پیش آتی تو خود سے یاد آجاتا تھا کہ یہ مسئلہ کس کتاب میں دیکھنا چاہیے۔
جب تدریس و تالیف کی عملی زندگی میں قدم رکھا تو زیادہ تر مطالعہ اپنی زیر تدریس کتابوں اور زیر تالیف مضامین کی حد تک محدود ہوگیا۔لیکن تدریس کے دوران بھی طبیعت کچھ ایسی رہی کہ جو مضمون یا کتاب پڑھانی ہوتی۔ اس کے جملہ متعلقات اپنے پاس جمع کرکے رکھتا تھا اور ان کے مطالعہ میں خاصا وقت صرف کرتا تھا۔ البتہ اُس میں سے طلبہ کو صرف اتنی بات بیان کرنے کے لیے منتخب کرتا جو ان کی ذہنی سطح اور ضرورت کے مطابق ہو۔
بیرونی اسفار کے دوران میرے اوقات کا ایک بڑا حصہ وہاں کے کتب خانوں کی سیر کا ہوتا تھا۔ اس جستجو میں ایسے کتب خانوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔جنہیں عرف عام میں کباڑی کہا جاتا ہے۔اور بعض اوقات میں نے کئی کئی گھنٹے بوسیدہ کتابوں کی چھان بین میں گزارےیہاں تک کہ کپڑے گردوغبار سے اَٹ گئے۔
جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کن کتابوں اور مصنفین نے سب سے زیادہ متاثر کیا تو علمی تاثر کے اعتبار سے کتابوں اور مصنفین کی ایک طویل فہرست ذہن میں آ جاتی ہے۔جس کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس کو کس پر ترجیح دی جائے۔
لیکن خالص اور نظریاتی مقاصد سے ہٹ کر صرف اپنی اصلاح اور عملی زندگی پر اثرات کے نقطۂ نظر سے اپنی محسن کتابوں کے بارے میں سوال کیا جائے تو میرا ایک ہی جواب ہوگا اور وہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کے مواعظ(خطبات) کا ذخیرہ ہے۔ ابتدائی مطالعے کے دور میں حضرت کی تالیفات اور مواعظ و ملفوظات اپنی فہم و ادراک کی پہنچ سے بالاتر بھی معلوم ہوتے تھے۔ اس لیے انہیں دلچسپی کے ساتھ پڑھنے کے مواقع کم آئے لیکن حضرت والد ماجد رحمہ اللہ اور اپنے شیخ حضرت عارفی قدس اللہ سرہ کی ہدایت پر روزانہ معمول کے طور پر جب مواعظ (خطبات)کا مطالعہ شروع کیا تو رفتہ رفتہ اُن میں دلچسپی اس قدر بڑھی کہ شروع کرنے کے بعد کسی حد پر رُکنا طبیعت پر بار ہونے لگا۔ اندازہ ہوا کہ ان مواعظ میں علوم و معارف کا ایسا دریا موجزن ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ خاص طور پر دین کی صحیح سمجھ، اس کی حدود کی پہچان اور نفسِ انسانی کی معرفت اور اس کو اصلاح کے راستے پر لگانے کی جو تدبیریں اُن میں نظر آئیں وہ اپنی نظیر آپ ہیں۔ اپنی عملی اصلاح سے تو اب بھی اپنی نااہلی کی وجہ سے محروم ہوں۔لیکن دین کا راستہ ان مواعظ کی بدولت الحمدللہ ذہن میں اتنا صاف اور منقح ہوگیا کہ اُس میں کوئی شک باقی نہیں رہا۔
جب سے تدریس اور تصنیف و تالیف میں اشتغال بڑھا شوقیہ مطالعے کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ لیکن مصروفیات اور اسفار کے ہنگاموں میں بھی کچھ نہ کچھ وقت اپنے شوق کی تسکین کیلئے نکال لیتا ہوں چاہے وہ سرسری انداز ہی میں ہو ۔لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ نرا مطالعہ انسان کی زندگی پر اتنا اثر انداز نہیں ہوتا۔
جتنا اثر کسی شخصیت کی صحبت اور اس کے مطالعے سے ہوتا ہے۔نرے مطالعے سے معلومات میں اضافہ تو ہو جاتا ہےلیکن صحیح فہم، اعتدالِ مزاج اور اصلاحِ نفس شخصیات کی صحبت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔
Featured products
بوادر النوادر (77-79) 3 جلد
₨ 3190.00درس قرآن ڈیلکس ایڈیشن
₨ 8290.00