کھیل کود کی بھی ایک معقول حد ہوتی ہے
شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے ایک مضمون سے انتخاب
ہندوستان میں کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلے منعقد ہوئے جن کا چرچا برصغیر میں تقریباً ڈیڑھ ماہ جاری رہا۔ اس عرصے میں ایک درجن سے زائد میچ کھیلے گئے اور ہر ہفتے میں کم از کم دو تین مقابلے منعقد ہوتے رہے۔ اس دوران کھیلوں کے یہ مقابلے ملک بھر کی اہم ترین دلچسپی کا موضوع بنے ہوئے تھے گھر گھر اسی کا چرچا تھا اور سربراہان مملکت سے لے کر مزدور اور ملازم تک اکثر افراد انہی کھیلوں کی تازہ ترین صورتحال معلوم کرنےمیں مشغول رہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان دنوں پوری قوم کا اہم ترین مسئلہ یہ مقابلے ہیں اور ان سے زیادہ اہمیت کسی موضوع کو حاصل نہیں ہے۔
ایسے ورزشی کھیل جن سے صحت و قوت برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے بذات خود کوئی ناجائز یا بری چیز نہیں ہیں لیکن ہر چیز کی کوئی معقول حد ہوتی ہے۔ جس سے تجاوز کرکے مباحات و نیک کام بھی ناجائز ہوجاتا ہے۔ اس وقت کھیلوں کی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بذات خود ایک مقصد زندگی بنا لیا گیا ہے۔
اس طرز عمل کے نتیجے میں پوری قوم کے اوقات جس بے دردی سے برباد ہورہے ہیں ان پر حسرت و افسوس کے اظہار کیلئے الفاظ ناکافی معلوم ہوتے ہیں‘ وقت کی قدر پہچاننا ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں کبھی دورائے نہیں ہوئیں‘ صرف اسلام ہی نہیں دنیا بھر کے مذاہب بلکہ بے خدا فلسفی بھی ہمیشہ وقت کی قدر کا درس دیتے رہے ہیں۔ لیکن ان کھیلوں کے دوران ہمارے مجموعی طرز عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نزدیک سب سے زیادہ فالتو اور بے مصرف چیز وقت ہے اور اس کا کوئی مصرف میچ دیکھنے اور اس پر تبصرہ کرنے اور سننے سے بہتر نہیں ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/
Featured products
بوادر النوادر (3 جلد)۔
₨ 3190.00درس قرآن ڈیلکس ایڈیشن
₨ 8290.00