کرکٹ میچ کی تباہ کاریاں
میچ کے دنوں میں بعض مقامات پر تو باقاعدہ سرکاری چھٹی کا اعلان کیا گیا لیکن جہاں باقاعدہ چھٹی نہیں ہوئی‘ وہاں بھی عملاً چھٹی ہی کی سی کیفیت رہی۔ جب دفتروں اور تعلیم گاہوں میں ہمہ وقت نظریں ٹی وی پر اور کان ریڈیو پر مرکوز ہوں اور ذہن و تصور کھیل کے میدان میں پہنچا ہوا ہو تو دفتری کام اور تعلیم جیسی چیزوں میں وہ دلچسپی کہاں سے پیدا ہو جو انہیں سنجیدگی کے ساتھ انجام دینے کیلئے ضروری ہے؟
خاص طور پر وہ نوجوان اور نوخیز بچے جن کا ذہن ابھی کھیل کود اور زندگی کے سنجیدہ معاملات کے درمیان تقابل کرنے کا اہل ہی نہیں ہے، جب ان کے دل و دماغ پر شب و روز گیند اور بلے ہی کی حکمرانی رہے گی تو وہ تعلیم جیسے خشک کام پر کیسے توجہ دے سکیں گے؟
اس پر مستزاد یہ ہے کہ حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے کھیلنے والوں کو جو پذیرائی ہوتی ہے اور کھیل کے قدر دانوں کی طرف سے ان پر جس طرح تحسین و آفرین اور دولت و شہرت نچھاور کی جاتی ہے‘ وہ کبھی ملک کے کسی بڑے سے بڑے مفکر‘ کسی بڑے سے بڑے سائنس دان یا بڑے سے بڑے مصلح کے حصے میں بھی نہیں آئی۔
اچھے کھلاڑی کو ایک ایک ایکشن پر لاکھوں روپے کے انعامات مل رہے ہیں‘ کسی کھلاڑی کا بابرکت بلا لاکھوں روپے میں فروخت ہورہا ہے‘ کسی کو کار انعام میں مل رہی ہے۔ سربراہان حکومت پورے پورے دن بیٹھ کر ان کے کارنامے دیکھ رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے انہیں انعامات تقسیم کررہے ہیں۔
جب بچے یہ دیکھتے ہیں کہ کھیل کو مقصد زندگی بنانے والوں کی چاندی ہی چاندی ہے تو ان بے چاروں کا کیا قصور ہے اگر وہ سمجھنے لگیں کہ تعلیم میں جی لگانے کی نصیحتیں ایک ڈھونگ سے زیادہ نہیں ہیں ورنہ دنیا میں بہترین راستہ تو کھیل میں جی لگانا ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/
Featured products
بوادر النوادر (3 جلد)۔
₨ 3190.00درس قرآن ڈیلکس ایڈیشن
₨ 8290.00