جہیز کی شرعی حقیقت
جہیز کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے کوئی تحفہ اپنی استطاعت کے مطابق دینا چاہے تو دیدے۔
اس سلسلے میں ہمارے معاشرے میں جو غلط تصورات پھیلے ہوئے ہیں وہ مختصراً درج ذیل ہیں:۔
۔1۔ جہیز کو لڑکی کی شادی کیلئے ایک لازمی شرط سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ جب تک جہیز دینے کیلئے پیسے نہ ہوں‘ لڑکی کی شادی نہیں کی جاتی۔ نہ جانے کتنی لڑکیاں اسی وجہ سے بن بیاہی رہتی ہیں کہ انہیں دینے کیلئے جہیز نہیں ہوتا۔ اور جب شادی سر پر آہی جائے تو جہیز کی شرط پوری کرنے کیلئے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں۔
۔2۔ جہیز کی مقدار اور اس کیلئے لازمی اشیاء کی فہرست میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چنانچہ اس میں صرف بیٹی کی ضروریات ہی داخل نہیں بلکہ اس کے شوہر کی ضروریات پوری کرنا اور اس کے گھر کو مزین کرنا بھی ایک لازمی حصہ ہے‘ خواہ لڑکی کے باپ کا دل چاہے یا نہ چاہے اسے یہ تمام لوازم پورے کرنے پڑتے ہیں۔
۔3۔ بات صرف اتنی نہیں ہے کہ لڑکی کی ضروریات پوری کرکے اس کا دل خوش کیا جائے بلکہ جہیز کی نمائش کی رسم نے یہ بھی ضروری قرار دیدیا ہے کہ جہیز ایسا ہو جو ہر دیکھنے والے کو خوش کرسکے اور انکی تعریف حاصل کرسکے۔
۔4۔ جہیز کے سلسلے میں سب سے گھٹیا بات یہ ہے کہ لڑکی کا شوہر یا اس کے سسرال کے لوگ جہیز پر نظر رکھتے ہیں۔ بعض جگہ تو شاندار جہیز کا مطالبہ پوری ڈھٹائی سے کیا جاتا ہے اور بعض جگہ اگر صریح مطالبہ نہ ہو تب بھی توقعات یہ باندھی جاتی ہیں کہ دلہن اچھا سا جہیز لے کر آئے گی اور اگر یہ توقعات پوری نہ ہوں تو لڑکی کو طعنے دے دے کر اس کا ناک میں دم کردیا جاتا ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/
Featured products
بوادر النوادر (3 جلد)۔
₨ 3190.00درس قرآن ڈیلکس ایڈیشن
₨ 8290.00