جہیز کے متعلق اہم ہدایات
شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ فرماتے ہیں چند سال پہلے ملک شام کے ایک بزرگ شیخ عبدالفتاح ہمارے یہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ اتفاق سے ایک مقامی دوست بھی اسی وقت آگئے اور جب انہوں نے ایک عرب بزرگ کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو ان سے دُعا کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میری دو بیٹیاں شادی کے لائق ہیں۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی شادی کے اسباب پیدا فرمادے۔
شیخ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کی لڑکیاں ہیں یا لڑکے ہیں؟ کہنے لگے کہ لڑکیاں ہیں۔ شیخ نے سراپا تعجب بن کر کہا لڑکیوں کی شادی کے لیے مالی وسائل کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس انہیں جہیز میں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے‘ شیخ نے پوچھا جہیز کیا ہوتا ہے؟
اس پر حاضرین مجلس نے انہیں بتایا کہ ہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ باپ شادی کے وقت اپنی بیٹی کو زیورات‘ کپڑے‘ گھر کا اثاثہ اور بہت سا سازو سامان دیتا ہے‘ اسے جہیز کہتے ہیں اور جہیز دینا باپ کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے جس کے بغیر لڑکی کی شادی کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور لڑکی کے سسرال والے بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔
شیخ نے یہ تفصیل سنی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ کیا بیٹی کی شادی کرنا کوئی جرم ہے جس کی یہ سزا باپ کو دی جائے۔
پھر انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں اس قسم کی کوئی رسم نہیں ہے‘ اکثر جگہوں پر تو یہ لڑکے کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ اپنے گھر میں دلہن کو لانے سے پہلے گھر کا اثاثہ اور دلہن کی ضروریات فراہم کرکے رکھے‘ لڑکی کے باپ کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑتا۔
اور بعض جگہوں پر رواج یہ ہے کہ لڑکی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سامان تو باپ ہی خریدتا ہے لیکن اس کی قیمت لڑکا ادا کرتا ہے۔
اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں جہیز کو جس طرح بیٹی کی شادی کا حصہ قرار دے لیا گیا ہے اس کے بارے میں دوسرے علاقوں کا کیا نکتہ نظر ہے؟
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/
Featured products
بوادر النوادر (3 جلد)۔
₨ 3190.00درس قرآن ڈیلکس ایڈیشن
₨ 8290.00