جہیز کے متعلق چند اصلاحی تجاویز
بعض حضرات یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جہیز کو قانوناً بالکل ممنوع قرار دے دیا جائے لیکن دراصل یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور اس قسم کے مسائل صرف قانون کی جکڑ بند سے حل نہیں ہوتے اور نہ ایسے قوانین پر عمل کرنا ممکن ہوتا ہے اس کیلئے تعلیم و تربیت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک مناسب ذہنی فضا تیار کرنی ضروری ہے‘ بذات خود اس بات میں کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی بھی نہیں ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اپنے دل کے تقاضے سے اسے ایسی چیزوں کا تحفہ پیش کرے جو اس کیلئے آئندہ زندگی میں کارآمد ہوں۔
خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سادگی کے ساتھ کچھ جہیز عطا فرمایا تھا۔ شرعی اعتبار سے اس قسم کے جہیز کے لیے کوئی مقدار بھی مقرر نہیں ہے اگر دوسرے مفاسد نہ ہوں تو باپ اپنے دلی تقاضے کے تحت جو کچھ دینا چاہے دے سکتا ہے۔
لیکن خرابی یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ اول تو اسے نمود و نمائش کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور دوسرے لڑکے والے عملاً اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جہیز کی امیدیں باندھتے ہیں اور انتہائی گھٹیا بات یہ ہے کہ اس کی کمی کی وجہ سے لڑکی اور اس کے گھر والوں کو مطعون کرتے ہیں۔
جہیز کی ان خرابیوں کو ختم کرنے کیلئے معاشرے کے تمام طبقات کو ان تصورات کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا۔ ان تصورات کی قباحتیں مختلف انداز و اسلوب سے متواتر بیان کرنے اور کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ یہ گھٹیا باتیں ہر کس و ناکس کی نظر میں ایک ایسا عیب بن جائیں جس کی اپنی طرف نسبت سے لوگ شرمانے لگیں۔
کسی بھی معاشرے میں پھیلے ہوئے غلط تصورات یا بری عادتیں اسی طرح رفتہ رفتہ دور ہوتی ہیں کہ اس معاشرے کے اہل اقتدار‘ اہل علم و دانش اور دوسرے بارسوخ طبقے مل جل کر ایک ذہنی فضا تیار کرتے ہیں‘ یہ ذہنی فضا رفتہ رفتہ فروغ پاتی ہے اور لوگوں کی تربیت کرتی ہے لیکن اس کیلئے درد مند دل اور انتھک جدوجہد درکار ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/
Featured products
بوادر النوادر (3 جلد)۔
₨ 3190.00درس قرآن ڈیلکس ایڈیشن
₨ 8290.00