حضرت مقداد بن اسود

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انکے دو ساتھیوں کی بھوک

حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے دو ساتھی اس حال میں آئے کہ بھوک اور فقر و فاقہ کی وجہ سے ہمارے کانوں کی سننے کی طاقت اور آنکھوں کی دیکھنے کی طاقت بالکل ختم ہونے والی تھی ہم لوگ اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر پیش کرنے لگے (کہ ہمیں اپنے ہاں لے جا کر کھلائیں پلائیں) لیکن ہمیں کسی نے قبول نہ کیا (اس لئے کہ ہم سب کا حال ایک جیسا تھا) یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر لے آئے۔
آپ کے گھر والوں کی صرف تین بکریاں تھیں جن کا وہ دودھ نکالا کرتے۔ آپ ہمارے درمیان دودھ تقسیم کیا کرتے تھے اور ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا کر رکھ دیا کرتے۔
آپ جب تشریف لاتے تو اتنی آواز سے سلام کرتے کہ جاگنے والا سن لے اور سونے والے کی آنکھ نہ کھلے۔ ایک دن مجھ سے شیطان نے کہا کہ کیا ہی اچھی بات ہو اگر تم (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا) یہ گھونٹ بھر (دودھ بھی) پی لو کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے پاس چلے جائیں گے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ نہ کچھ تواضع کر ہی دیں گے۔
شیطان میرے پیچھے پڑا رہا یہاں تک کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا دودھ پی لیا۔ جب میں پی چکا تو شیطان مجھے شرمندہ کرنے لگا اور کہنے لگا یہ تم نے کیا کیا؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور جب اپنے حصے کا دودھ نہ پائیں گے تو تیرے لئے بددعا کریں گے تو تو برباد ہو جائے گا۔
میرے دونوں ساتھی تو اپنے حصے کا دودھ پی کر سو گئے اور مجھے نیند نہ آئی۔ میں نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی (جواتنی چھوٹی تھی کہ) اگر میں اس سے سر ڈھکتا تو پیر کھل جاتے اور پیر ڈھکتا تو سر کھل جاتا۔ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معمول کے مطابق تشریف لائے اور کچھ دیر آپ نے نماز پڑھی۔ پھر آپ نے اپنے پینے کے برتن پر نظر ڈالی۔
جب آپ کو اس میں کچھ نظر نہ آیا تو آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے بددعا کریں گے اور میں برباد ہو جاؤں گا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی اے اللہ! جو مجھے کھلائے تو اسے کھلا اور جو مجھے پلائے تو اسے پلا۔
یہ سنتے ہی (خلاف توقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعا کرنے سے متاثر ہو کر) میں نے چھری اٹھائی اور اپنی چادر لی اور بکریوں کی طرف چلا اور ان کو ٹٹولنے لگا کہ ان میں سے کونسی موٹی ہے تاکہ میں اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کروں لیکن میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ تمام بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے (حالانکہ تھوڑی دیر پہلے ان کا دودھ نکالا تھا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے جس برتن میں دودھ نکالنا پسند کرتے تھے میں نے وہ برتن لیا اور میں نے اس میں اتنا دودھ نکالا کہ اس کے اوپر جھاگ آ گیا۔
پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر وہ دودھ پیش کیا۔ آپ نے اسے نوش فرمایا اور پھر مجھے دیا میں نے اس میں سے پیا میں نے پھر آپ کو پیش کیا۔ آپ نے اس میں سے پھر نوش فرمایا۔ پھر مجھے دے دیا۔ میں نے اس میں سے دوبارہ پیا۔
۔(چونکہ یہ سب کچھ میری توقع کے خلاف ہوا تھا اس لئے مجھے بہت زیادہ خوش ہوئی) اور پھر میں (خوشی کے مارے) ہنسنے لگا اور میں ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو گیا اور زمین کی طرف جھک گیا۔
آپ نے مجھ سے فرمایا اے مقداد! یہ تیری حرکتوں میں سے ایک حرکت ہے۔ تو میں نے جو کچھ کیا تھا وہ میں آپ کو سنانے لگا (سن کر) آپ نے فرمایا یہ (خلاف عادت بکریوں سے دودھ مل جانا تو) صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہی ہوا ہے۔
اگر تم اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی اٹھالیتے اور وہ بھی اس دودھ میں سے پی لیتے (تو یہ زیادہ اچھا تھا) میں نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ے۔
جب آپ نے یہ دودھ نوش فرمالیا اور آپ کا بچا ہوا دودھ مجھے مل گیا تو اب مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے، کسی کو ملے یا نہ ملے۔ (اخرجہ ابونعیم فی الحلیۃ 173/1)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 249 – 251
۔

Written by Huzaifa Ishaq

24 October, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments