سلطان باہُو رحمہ اللہ تعالیٰ کا مختصر تعارف
سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کا شمار متفقہ طور پر بر صغیر کے عظیم صوفیائے کرام میں ہوتا ہے۔ آپ رحمہ اللہ کی ولادت مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہد میں شورکوٹ (ضلع جھنگ) کے قریب گاؤں اعوان میں 1039ھ / 1629ء ماہ رمضان میں ہوئی اور شورکوٹ میں ہی جمادی الثانی 1102ھ / 1691ء بروز جمعرات وصال ہوا۔
آپ رحمۃاللہ علیہ نے اپنی تصنیفات میں ہمیشہ اپنا اسم گرامی باھو لکھا ہے۔ سلطان ان کے نام کا حصہ نہیں تھا۔ عارفانہ عظمت وفقر اور اخلاق عالیہ کی بدولت آپ کا لقب’’سلطان‘‘ نام کا حصہ بن گیا۔ آپ مادر زاد ولی کامل تھے۔ چنانچہ بیان کیا جا تا ہے کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا معصوم چہرہ لوگوں کو اس طرح یاد خدا دلاتا کہ کافر تک انہیں دیکھ کر کلمہ پڑھ اٹھتے تھے۔
آپ رحمۃاللہ علیہ نے کسی مکتب یا استاد سے علم حاصل نہیں کیا۔ آپ رحمۃاللہ علیہ کو باطنی فیض و ارشاد حضرت رسالت مآب ﷺ سے حاصل ہوا۔ جس کے بارے میں آپ رحمۃاللہ علیہ نے اپنی اکثر کتب میں ذکر کیا ہے۔ ان کے بعد حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کے ہاتھ پر باطنی کشف کے ذریعے بیعت کی ۔اس لیے آپ رحمۃاللہ علیہ کا لقب سروری قادری ہے ۔ آپ رحمۃاللہ علیہ نے حضرت غوث الاعظم رحمۃاللہ علیہ کو’شیخ ما‘ ( ہمارے پیر ) کہا ہے ۔
حضرت سلطان باھو رحمۃاللہ علیہ نے تصوف وسلوک کا درس دینے کے لیے فارسی زبان کو اپنایا (اس زمانے میں تحریر و تقریر کی زبان فارسی تھی )۔ ان کی فارسی تصانیف کی تعداد ایک سو چالیس بتائی جاتی ہے لیکن ان کی شہرت کا باعث وہ’ابیات‘ ہیں جو پنجابی زبان میں ہیں ۔ ان کی پنجابی شاعری میں بڑی مٹھاس ہے اور معرفت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ان کے ابیات کی روحانی و جمالیاتی حظ رسانی کا یہ عالم ہے کہ اگر انہیں صحیح ادائیگی کے ساتھ تحت اللفظ بھی پڑھا جاۓ اور سنایا جاۓ تو ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ کلام سے عشق حقیقی ،حق گوئی اور راست کرداری کے جذبات ظاہر ہوتے ہیں۔ اسلوب بیان سادہ ہے جس میں تصنع اور تکلف سے کام نہیں لیا گیا۔ انہوں نے واحدانیت کو اپنے فکر کی بنیاد بنایا ہے۔ ان ناپسند یدہ عناصر کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے جو معاشرہ میں خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
آپ نے اپنے من میں جھانکنے اور اپنی ذات پر غور کرنے کی تلقین کی ہے۔ آپ پہلے صوفی ہیں جنہوں نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے مسئلہ کو یگانگت دی ہے اور مرشد کامل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اپنے کلام میں دنیاداری تیاگ کر درویشی اپنانے کا درس دیا ہے کہ ان کے بقول اس راستے پر چل کر انسان کو عرفان ذات بھی حاصل ہوتا ہے اور عرفان حق بھی۔
سلطان باھو رحمۃاللہ علیہ کی شاعری کو سمجھنے کے لیے اردو نثری ترجمہ پیش خدمت ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ سلیس اور تشریح مختصر ہو۔ امید ہے کہ افکار باھو رحمۃاللہ علیہ کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب ممد ومعاون ہوگی ۔
0 Comments