آو! سب سیرت طیبہ اپنائیں

Mufti Taqi Usmani Words and Blogs on KitabFarosh Online Bookstore
آو! سب سیرت طیبہ اپنائیں

شیخ الاسلام مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ کے ایک خطاب سے انتخاب

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی سعادت نہیں ہو سکتی ‘ لیکن ہمارے معاشرے میں آپ کے مبارک تذکرہ کو صرف 12ربیع الاول کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 12ربیع الاول کو چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی اس لیے آپ کا یوم ولادت منایا جائے گا۔

اس میں کسی مسلمان کو شبہ نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا‘ انسانی تاریخ کا اتنا عظیم و مبارک واقعہ ہے کہ اس سے زیادہ عظیم اس سے زیادہ پر مسرت اس سے مبارک و مقدس واقعہ اس روئے زمین پر پیش نہیں آیا۔ اگر اسلام میں کسی کی یوم پیدائش منانے کا کوئی تصور ہوتا تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش سے زیادہ کوئی دن اس بات کا مستحق نہیں تھاکہ اس کو منایا جائے۔ لیکن نبوت کے بعد آپ 23سال اس دنیا میں تشریف فرما رہے ہر سال ربیع الاول کا مہینہ آتا تھا لیکن نہ صرف یہ کہ آپ نے 12ربیع الاول کو یوم پیدائش نہیں منایا‘ بلکہ کسی صحابی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ نہیں گزرا کہ چونکہ 12ربیع الاول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن ہے اس لیے اس کو خاص طریقے سے منانا چاہیے۔

یوم پیدائش منانے کا یہ تصور ہمارے یہاں عیسائیوں سے آیا ہے حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم پیدائش کرسمس کے نام سے 25دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریباً تین سو سال تک حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم پیدائش منانے کا کوئی تصور نہیں تھا‘ لیکن تین سو سال کے بعد لوگوں نے یہ بدعت شروع کی۔

اللہ تعالیٰ انسان کی نفسیات اور اس کی کمزوریوں سے واقف ہیں اللہ تعالیٰ یہ جانتے تھے کہ اس کو ذرا سا شوشہ دیدیا گیا تو یہ کہاں سے کہاں بات کو پہنچائے گا۔ اس واسطے کسی کے دن منانے کا کوئی تصور ہی نہیں رکھا۔ جس طرح کرسمس کے ساتھ ہوا ‘ اسی طرح یہاں بھی ہوا کہ کسی بادشاہ کے دل میں خیال آگیا کہ جب عیسائی لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم پیدائش مناتے ہیں تو ہم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش کیوں نہ منائیں؟ شروع میں یہاں بھی یہی ہوا کہ میلاد ہوا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان ہوا اور کچھ نعتیں پڑھی گئیں لیکن اب آپ دیکھ لیں کہ نوبت کہاں تک پہنچ چکی ہے۔

اس میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ سب کچھ دین کے نام پر ہو رہا ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ اسلام کا طریقہ نہیں ہے اور اگر اس طریقے میں خیر و برکت ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم اس سے چوکنے والے نہیں تھے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ نہ جلوس ہے‘ نہ جلسہ ہے‘ نہ چراغاں ہے نہ سجاوٹ ہے لیکن ایک چیز ہے وہ یہ کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ زندگیوں میں رچی ہوئی ہے۔ ان کا ہر دن سیرت طیبہ کا دن ہے ان کا ہر کام سیرت طیبہ کا کام ہے۔ چونکہ وہ جانتے تھے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے کہ اپنا دن منوائیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا منشا وہ ہے جو قرآن کریم میں بتایا گیا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے پاس بہترین نمونہ بنا کر بھیجا ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو۔ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور اللہ کو کثرت سے یادکرتا ہو۔ (سورہ احزاب)

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

Written by Huzaifa Ishaq

You May Also Like…

رمضان المبارک کے مقاصد

رمضان المبارک کے مقاصدتقویٰ کا حصول:۔مغفرت کا حصول:۔قرآن سے ہدایت حاصل کرنا:۔شبِ قدر کا قیام:۔بصیرت کے ساتھ روزہ...

رمضان میں عبادت

رمضان میں عبادتعبادت کی وسعت اور جامعیت:۔عبادت میں سنت کے مطابق ہونا ضروری ہے:۔عبادت میں مقدار اور معیار کی اہمیت:۔...

Subscribe To Our Newsletter

Subscribe To Our Newsletter

Join our mailing list to receive the latest news and updates from our team.

You have Successfully Subscribed!

Pin It on Pinterest

Share This

Share This

Share this post with your friends!

Share This

Share this post with your friends!