اتباع سنت کی اہمیت و فضیلت کے واقعات

مسنون زندگی قدم بہ قدم

اتباع سنت کی اہمیت و فضیلت کے واقعات

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ گھرمیں تشریف لاتے تو مسکراتے ہوئے تشریف لاتے’ کون مسکراتا ہوا آ رہا ہے؟ جس پریہود و منافقین کی زد بھی ہے’ مشرکین برسرپیکار بھی ہیں’ وحی کا بار امانت بھی ہے اور پھر اس بار امانت کو دوسروں تک پہنچانا بھی ہے اور اس کے علاوہ کتنے کثیر امور ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ہیں۔
ہمارے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اپنے آپ کو شریعت کے مطابق خوب ڈھالا تھا’ ہمارے حضرت کی دو بیویاں تھیں’ آپ رحمہ اللہ عصر کے بعد دونوں گھروں میں پندرہ پندرہ منٹ کے لئے تشریف لے جاتے’ گھڑی دیکھ لیتے اور اندازہ لگا لیتے تھے کہ خانقاہ سے گھر تک کتنا وقت لگے گا اور وہاں سے دوسرے گھر’ پھر وہاں سے خانقاہ تک پھر مغرب تک’ یہ سب اوقات متعین تھے اب چونکہ عورتوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ایک بات یادآ گئی یا کچھ یاد آ گیا’ حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس کے لئے دو منٹ چھوڑتے تھے’ جب تیرہ منٹ ہو جاتے تھے تو آپ کہتے کہ اب میں جاؤں گا۔ اگر گھر سے کچھ کہنا ہوتا تو دومنٹ میں بات ختم ہو جاتی اور اگر وہ کہتیں کہ کچھ نہیں کہنا’ تو فرماتے کہ میں ٹہلتا ہوں پھر آپ دوسرے گھر تشریف لے جاتے اور اس طرح ۱۳ منٹ اور دو منٹ کا سلسلہ وہاں بھی ہوتا۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے ہمیشہ سے یہ عادت ڈالی ہوئی ہے کہ جب ایک گھر سے باہر قدم رکھا تو گھر کی طرف سے تمام کہی ہوئی باتیں بھلا دیتا ہوں اور ذہن خالی کر لیتا ہوں اور جب دوسرے گھر جاتا ہوں تو مجھے یاد ہی نہیں رہتا کہ پہلے گھر میں کیا کیا باتیں ہوئیں۔ کسی قسم کا تاثر لے کر نہیں جاتا۔
فرمایا:… تاثر استغفار اور ذکراﷲ سے مٹ جاتا ہے فرمایا جب میں دوسرے گھر جاتا ہوں تو فوراً ذکراﷲ میں مشغول ہو جاتا ہوں اور ذکر اﷲ اسی نیت سے کرتا ہوں۔
اس طرح سے یہ تاثر والی کیفیت خود بخود جاتی رہتی ہے۔ (انمول موتی جلد 1)

حضرت ڈاکٹر حفیظ اللہ مہاجر مدنی رحمہ اللہ کی اتباعِ سنت

اتباع سنت آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی ہر موقعہ کی دعائیں یاد تھیں…. حسب موقعہ پڑھتے رہتے جب کار میں بیٹھتے تو سواری پر سوار ہونے کے وقت کی دعائیں پڑھتے…. سبحان اللہ الحمدﷲ لا الہ الا اﷲ استغفراللہ…. اور استغفراللہ کافی دیر تک پڑھتے رہتے…. یہ سوچتے تھے….۔
خدانخواستہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے اور وقت آخر آ جائے تو توبہ کی ہوئی ہو جب منزل مقصود پر پہنچتے تو زبان پر الحمدﷲ جاری ہوتا کسی کے ہاں دعوت ہوتی تو آخر میں صاحب دعوت کیلئے مسنون دعائیں بغیر ہاتھ اٹھائے کرتے اور کبھی نہ بھولتے فرمایا کہ ایک دفعہ دعا بھولنے لگی تھی مگر صاحب دعوت کے گھر سے نکلنے سے پہلے پڑھ لی تھی…. آپ کی زبان ذکر اللہ سے تر رہتی…. بالخصوص لا الہ الا اللہ اکثر زبان پر جاری رہتا….۔
سونے سے پہلے کی سنتیں باقاعدگی سے ادا فرماتے…. مسواک فرماتے وضو فرماتے اگر کبھی تکلیف ہوتی تو تیمم فرما لیتے…. سونے سے پہلے کی دعائیں پڑھتے اور دائیں کروٹ پر لیٹتے تھے….۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا وجہ کسی کی نیند میں خلل نہ ڈالتے تھے…. حضرت کے خلیفہ خاص حضرت حاجی عبدالستار مدظلہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جب دوپہر کو مریض چلے گئے تو حضرت ڈاکٹر صاحبؒ اور حضرت مفتی عبدالحکیم صاحب مطب کے زنانہ وارڈ میں آرام فرما رہے تھے…. وہ جگہ یکسوئی کی تھی…. کوئی عورت یا مریض مطب میں نہ تھا….۔
حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی نیند پہلے کھل گئی…. جبکہ حضرت مفتی صاحب نیند فرما رہے تھے حضرت وضو کرنے کیلئے مردانہ وارڈ میں جانا چاہتے تھے….۔
درمیان میں ایک کواڑ والا دروازہ تھا…. جو زمین کی سطح سے فٹ ڈیڑھ فٹ اونچا تھا…. جب اس کو کھولا جاتا تو اس سے آواز پیدا ہوتی…. حضرت نے دروازہ نہیں کھولا تاکہ اس کی آواز سے حضرت مفتی صاحب کی نیند خراب نہ ہو….۔
بلکہ دروازے کے نیچے سے گھسٹ کر دروازہ پار کیا…. اب میں سمجھا کہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی عظمت کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے….۔

اتباع سنت کیلئے سخت تکلیف اٹھانا

ایک حبشی صحابی رضی اللہ عنہ کے سر کے بال گھنگھریالے تھے وہ غسل کرنے کے بعد چاہتے کہ سر کے بالوں میں مانگ نکالیں مگر نہ نکلتی انہیں بہت حسرت رہتی کہ میرا سر بھی نبی علیہ السلام کے سر مبارک سے مشابہ ہونا چاہیے…. ایک دن فرط جذبات میں انہوں نے لوہے کی سلاخ گرم کی اور سر کے درمیان میں پھیر دی….۔
چمڑا اور بال جلنے کی وجہ سے سر کے درمیان ایک لکیر نظر آنے لگی لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اتنی تکلیف کیوں اٹھائی؟
فرمایا…. تکلیف تو بھول جاؤں گا جب میرے سر پر یہ مانگ اسی طرح نظر آئے گی جس طرح نبی علیہ السلام کے سر پر نظر آتی ہے….۔ (سچی محبت اور اس کی علامات)

اتباع سنت کا عجیب واقعہ

حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جب شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ آخری حج سے تشریف لا رہے تھے تو ہم لوگ اسٹیشن پر شرف زیارت کے لئے گئے…. حضرت کے متوسلین میں سے ایک صاحب زادہ محمد عارف ضلع جھنگ دیوبند تک ساتھ گئے…. ان کا بیان ہے کہ ٹرین میں ایک ہندو جنٹلمین بھی تھا جس کو ضرورت فراغت لاحق ہوئی…. وہ رفع حاجت کیلئے گیا اور الٹے پاؤں بادل ناخواستہ واپس ہوا….۔
حضرت مولانا مدنی رحمہ اللہ سمجھ گئے….۔ فوراً چند سگریٹ کی ڈبیاں ادھر ادھر سے اکٹھی کیں….۔ لوٹا لے کر پاخانہ میں گئے اور اچھی طرح صاف کر کے ہندو سے فرمانے لگے کہ ‘‘جائیے پاخانہ بالکل صاف ہے’’….۔ نوجوان نے کہا ‘‘مولانا….۔ میں نے دیکھا ہے….۔ پاخانہ بالکل بھرا ہوا ہے’’….۔ قصہ مختصر وہ اٹھا اور جا کر دیکھا تو پاخانہ بالکل صاف تھا….۔ بہت متاثر ہوا اور بھرپور عقیدت کے ساتھ عرض کرنے لگا ‘‘یہ حضور کی بندہ نوازی ہے جو سمجھ سے باہر ہے’’….۔
اس واقعہ کو دیکھ کر خواجہ نظام الدین تونسوی مرحوم نے ایک ساتھی سے پوچھا کہ ‘‘یہ کھدر پوش کون ہے؟’’ جواب ملا کہ ‘‘یہ مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ہیں’’ تو خواجہ صاحب مرحوم بے اختیار ہو کر حضرت مدنی رحمہ اللہ کے پاؤں سے لپٹ گئے ا ور رونے لگے….۔ حضرت نے جلد پاؤں چھڑائے اور پوچھا….۔
کیا بات ہے؟ تو خواجہ صاحب نے کہا ‘‘سیاسی اختلاف کی وجہ سے میں نے آپ کے خلاف فتوے دئیے اور برا بھلا کہا….۔ آج آپ کے اس اعلیٰ کردار کو دیکھ کر تائب نہ ہوتا تو شاید سیدھا جہنم میں جاتا….۔
حضرت مدنی رحمہ اللہ نے فرمایا ‘‘میرے بھائی! میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا ہے اور وہ سنت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک یہودی مہمان نے بستر پر پاخانہ کر دیا تھا…. صبح جلدی اٹھ کر چلا گیا جب اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو دیکھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس اپنے دست مبارک سے بستر کو دھو رہے ہیں…. یہ دیکھ کر وہ مسلمان ہو گیا’’…. (ماہنامہ الرشید)

مجاہدہ میں اتباع سنت

پیر جی محمد انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ اجل حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ پرمقام نور (تصوف کا ایک مقام) آیا تو انہوں نے کھانا پینا ترک کر دیا…. حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوا تو آپ نے تحریر فرمایا کہ: ‘‘شریعت کے خلاف مت کرو خدا کا معاملہ بشر کے ساتھ جب تک رہتا ہے جب تک بشریت ہے ورنہ عبادت کے لئے فرشتے بہت ہیں…. یہ امر سنت کے خلاف ہے بطریق مسنون کھانا پینا ضرور چاہئے خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو’’…. (تذکرہ العابدین)

جذبہ عشق

حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمہ اللہ کا معمول و تروں کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھنے کا تھا…. کسی نے عرض کیا حضرت! اس کا تو آدھا ثواب ہے….۔
حضرت نے فرمایا ہاں بھئی! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں جی زیادہ لگے پڑھا ہے…. ثواب زیادہ نہ ہو…. میرا خیال یہ ہے کہ ضابطہ میں تو آدھا ہی ثواب ہے مگر جذبہ عشق شاید پورا حصہ سے بھی بڑھ جائے…. (شیخ الحدیث اور دیگر اکابرین کا رمضان )

شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور اتباع سنت

حضرت مدنی رحمہ اللہ آخر میں کافی عرصہ شدید علیل رہے اس دوران مرض گھٹتا بڑھتا رہا…. ایک مرتبہ مرض بڑھا وہ بھی اس قدر کہ شب و روز یکساں نہایت اضطراب کے عالم میں گذرنے لگے اگرچہ آپکی لغت میں آرام ایک بے معنی لفظ سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا تھا لیکن اب آپ مجبور تھے کہ تمام مشاغل سے کنارہ کشی اختیار فرمائیں اور بستر سے جدا نہ ہوں مگر یہ مجبوری خارجی مشاغل تک محدود تھی لیکن تسبیح و تہلیل…. ذکر عبادت کا سلسلہ اب بھی جاری تھا بلکہ اس میں اضافہ ہو گیا تھا….۔
سنن و مستحبات تک کی پابندی بدستور تھی کمزوری کا یہ حال تھا کہ بغیر سہارا بیٹھ نہ سکتے تھے مگر غذا کے وقت تکیہ سے علیحدہ ہو جانا ضروری تھا…. سب کا اصرار ہوتا کہ تکیہ کی ٹیک لگا کر کھانا کھالیں مگر صاف فرما دیتے….۔ ‘‘نہیں بھائی! یہ سنت کے خلاف ہے’’….۔

حضرت تھانوی کی اہلیہ اور اتباع سنت کا اہتمام

حکیم الامت حضرت تھانوی قدس اللہ سرہ… نے ایک مرتبہ فرمایا کچھ دن تک جب بھی میں گھر جاتا تو دیکھتا کہ لوکی پکی ہوئی ہے تو میں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے آپ روزانہ لوکی پکاتی ہیں…۔
تو انہوں نے کہا کہ میں نے کتاب میں پڑھا تھا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو لوکی پسند تھی (رواہ البخاری) جب میں نے یہ پڑھا تو میں نے نوکر کو ہدایت کی کہ بازار میں لوکی ملتی ہو تو لوکی ضرور لایا کرو…۔
تاکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا کھانا گھر میں پکتا رہے…. حضرت فرماتے ہیں جب میں نے اپنی اہلیہ کے منہ سے یہ بات سنی تو میرے بدن پر ایک جھرجھری سی آگئی…۔ اس خیال سے کہ اس عورت کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک سنت عادیہ کا اتنا اہتمام ہے کہ جب تک لوکی بازار میں ملتی رہے لایا کرو…۔
اور ہم علم کے دعوے دار ہیں ہم نے حدیثیں پڑھیں اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھے مگر ہمارے دل میں اتنا اہتمام نہیں ہے…۔

سنت کی اتباع پر بشارت

حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا…. اے بشر:۔ تم جانتے ہو کہ تمہیں حق تعالیٰ نے تمام ہم عصر لوگوں پر فوقیت و فضیلت کس لیے دی ہے؟ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میں واقف نہیں….۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس فضیلت کا سبب یہ ہے کہ تم میری سنت کی اتباع کرتے ہو اور نیک لوگوں کی عزت کرتے ہو اور اپنے بھائیوں کی خیر خواہی کرتے ہو…. (روشنی)

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی اتباعِ سنت

حضرت گنگوہی قدس سرہٗ جب مسجد سے نکلتے تو پہلے بایاں پاؤں نکال کر جوتے یا کھڑاؤں پر رکھتے…. پھر دایاں پاؤں نکال کر پہلے اس میں جوتا یا کھڑاؤں پہنتے ، پھر بائیں پاؤں میں جو پہلے سے جوتے پر رکھا ہوتا ، پہنتے…. ایک شخص آئے ٗ قصہ تو لمبا ہے…. حضرت قدس سرہٗ اس وقت استنجا ء کے لئے گئے ہوئے تھے….۔
حضرت کے آنے پر کہا ٗ آداب…. حضرت نے غصہ میں فرمایا یہ کون بے ادب ہے ، جس کو شریعت کا ایک ادب بھی معلوم نہیں…. ایک مرتبہ ایک صاحب آئے اور بولے ، حضرت سلامت! آپ کے چہرہ پر غصہ کا اثر ظاہر ہوگیا اور فرمایا ٗ مسلمانوں والا سلام چاہئے ٗ یہ کون ہے حضرت سلامت والا…. (شمع رسالت )

دوسرا واقعہ:۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ ایک دن گھر تشریف لائے تو اہلیہ سے فرمایا کہ کل میں نے اپنی بچی صفیہ کا نکاح کرنا ہے… اہلیہ نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے… ابھی ہم نے تیاری نہیں کی کل تک کیسے انتظام ہو سکتا ہے …۔
لہٰذا آپ اپنے فیصلہ پر نظرثانی فرمائیں اور ہمیں مزید کچھ وقت دیں …تاکہ ہم حسب وسعت تیاری کرکے اپنی لخت جگر کو روانہ کر سکیں…۔
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نہیں بچی کا نکاح کل ہی ہوگا… یہ خبر حضرت کے سسرال اور بچی کے ننھیال والوں تک بھی پہنچ گئی… وہ سب جمع ہو کر حضرت کے پاس آئے کہ اس طرح اچانک بچی کی رخصتی کا کیا معنی؟ نہ آپ نے ہمیں بلایا ہے… نہ کوئی باہم مشورہ کیا کیا بچی کا نکاح اس طرح ہوتا ہے… حضرت نے فرمایا کہ بھائی تم کل نکاح میں شرکت کرلینا… انہوں نے کہا کہ شرکت کی دعوت اس طرح دی جاتی ہے جیسے آپ دے رہے ہیں… آخر ہمیں اس طرح اچانک نکاح کر دینے کی وجہ تو بتائیے…۔
برادری والوں کے اصرار پر حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح 16برس کی عمر میں کیا تھا …کل میری بچی اس عمر کو پہنچ رہی ہے تو میں بھی اتباع سنت میں اپنی بچی کا نکاح کل ہی کر دوں گا۔

سیّد احمد شہید اور مولانا عبدالحئی رحمہم اللہ کا ذوق اتباع سنت

حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ جن سے بیعت لیتے تھے ، ان کو اتباع سنت کی بہت تاکید کرتے تھے…. مولانا عبدالحئی صاحب سے ایک دفعہ کہا کہ اگرکوئی امر خلافِ سنت مجھ سے ہوتا دیکھو تو مجھے اطلاع کر دینا…۔
مولانا عبدالحئی صاحب رحمہ اللہ نے کہا ، جب کوئی مخالف سنت فعل آپ سے عبدالحئی دیکھے گا تو عبدالحئی آپ کے ساتھ ہوگا ہی کہا ں، یعنی ہمراہی چھوڑ دے گا…. اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی زندگیاں سنت میں رنگی ہوئی تھیں…۔
مولانا عبدالحئی صاحب رحمہ اللہ کے اتباع سنت کی نگرانی کا یہ عالم تھا کہ :اپنے شیخ کو بھی خلاف سنت پر ٹوک دیتے تھے…. ایک دفعہ حضرت سید صاحب رحمہ اللہ کی نئی شادی ہوئی تھی ، نماز میں اپنے معمول سے کچھ دیر سے تشریف لائے…۔
پہلے دن تو مولانا عبدالحئی نے سکوت کیا ، دوسرے دن بھی دیر ہوئی کہ تکبیر اولیٰ فوت ہوگئی…۔ مولانا عبدالحئی نے سلام پھیر کر فرمایا ، عبادتِ الٰہی ہوگی یا شادی کی عشرت؟ سید صاحب نے اپنی غلطی کااعتراف فرما لیا…۔

شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ

حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے اتباع سنت کے واقعات اس قدر مشہور اور زباں زد ہیں کہ ان سب کا لکھوانا تو بہت مشکل ہے اور اس کے دیکھنے والے ابھی تک بہت موجود ہیں…۔
اس ناکارہ نے اپنے اکابر میں اخیر شب میں رات کو گڑگڑاتے ہوئے رونے والا دو کو دیکھا ایک اپنے والد صاحب کو اور دوسرے حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ کو، ایسی ہچکیاں اور سسکیاں لیتے تھے جیسے کوئی بچہ پٹ رہا ہو…۔
قاری محمد میاں صاحب مدرس مدرسہ فتح پوری دھلی لکھتے ہیں کہ:۔
‘‘تہجد میں اول دو رکعتیں مختصر پڑھتے اور اس کے بعد دو رکعتیں طویل جن میں ڈیڑھ دو پارے قرأت فرماتے…. تہجد کی قرأت قدرے جہر سے ادا فرماتے پاس بیٹھا ہوا آدمی غور سے سنے تو پوری قرأت سن سکے…۔
قراءت کرتے وقت اس قدر خشوع اتنا گریہ….۔
سینہ مبارک سے ایسے کھولتے ہوئے گرم سانس…. جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت احادیث میں ذکر کی گئی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نماز ایسی پڑھا کرتے تھے کہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے اندر سے رونے کی وجہ سے ہانڈی کے جوش مارنے کی آواز کی طرح سے آواز آتی تھی…۔’’۔

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 87 تا 97

Written by Huzaifa Ishaq

8 October, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments