غزوۂ تبوک (رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا آخری غزوہ)
عہد نبوت کے معرکہ حق و باطل میں غزوۂ تبوک بڑی اہمیت کا حامل ہے جس میں مسلمانوں کو شدید آزمائش کا سامنا ہوا۔ اس غزوہ کے جائے وقوع یعنی ’’تبوک‘‘ کے بارہ میں شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے اپنے سفرنامہ ’’جہان دیدہ‘‘ میں ایمان افروز نقشہ کھینچا ہے۔ عہد نبوت کا یہ یادگار معرکہ آج بھی ہمارے ایمان و یقین کو جلا بخشتا ہے۔
لکھتے ہیں: تبوک اس وقت تو ایک جدید انداز کا شہر ہے جو چھوٹا ہونے کے باوجود بڑا خوبصورت بارونق اور جدید تمدنی سہولیات سے آراستہ ہے لیکن عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی اور یہاں پانی کا ایک چشمہ تبوک کہلاتا تھا، اسی کے نام پر بستی تبوک کے نام سے مشہور ہوگئی۔
غزوۂ تبوک کا سفر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام سفروں میں غالباً سب سے زیادہ پُر مشقت سفر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر بہ نفس نفیس تبوک تشریف لے جانے کا فیصلہ فرمایا، اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو تیاری کا حکم دے دیا۔
وہ وقت صحابہ کرام کے لیے شدید آزمائش کا وقت تھا روم جیسی اس دور کی سپر پاور سے مقابلہ صحرائے عرب میں گرمی کے شباب کا وہ زمانہ جس میں آسمان شعلے برساتا اور زمین آگ اگلتی۔ تقریباً آٹھ سو کلو میٹر کا فاصلہ جو وحشت ناک صحرائوں سے گذرتا تھا، سواریوں کی قلت، معاشی خستہ حالی اور مدینہ منورہ میں کھجوریں پکنے کا موسم گویا سال بھر کی محنت کا پھل اسی زمانے میں کھجوروں کی شکل میں سامنے آنے والا تھا جس پر سال بھر کی معیشت کا دارومدار تھا۔
ایسی حالت میں مدینہ منورہ سے سفر اختیار کرنا مزید معاشی مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فداکار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی کا حوصلہ تھا کہ وہ ان تمام مشکلات کو عبور کرکے اس صبر آزما سفر کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے معجزات ظاہر ہوئے، بالآخر تبوک میں اسی جگہ قیام فرمایا جہاں آج یہ مسجد بنی ہوئی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا، لیکن ہرقل بادشاہ کی طرف سے کوئی مقابلہ پر نہیں آیا۔ بظاہر جنگ نہیں ہوئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنی قربانیاں دے کر یہاں تشریف لانے سے اسلامی فتوحات کے سلسلے میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ دشمنوں پر مسلمانوں کا رعب طاری ہوا اور آس پاس کے قبائل خود حاضر ہوکر مطیع ہوئے۔ شام ہی کے علاقوں کے حکمرانوں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر صلح کی، اور جزیہ ادا کرنے پر راضی ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صلح نامہ لکھ کر دیا۔
یہیں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو چار سو سواروں کے ساتھ دومۃؔ الجندل روانہ فرمایا۔ یہ ہرقل کے زیرنگیں تھا اور اس کا فرمانروا اکیدر شاہ روم کی طرف سے مقرر ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو بھیجتے وقت ان سے فرمایا تھا کہ جب تم وہاں پہنچو گے تو اس کا حاکم اکیدر تمہیں شکار کرتا ہوا ملے گا۔ تم اسے قتل کرنے کے بجائے گرفتار کرکے میرے پاس لے آنا۔
چنانچہ جب آپ دومۃؔ الجندل کے قلعے کے قریب پہنچے تو اکیدر گرمیوں کی چاندنی رات میں قلعے کی فصیل پر اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا گانا سن رہا تھا، اچانک اس نے دیکھا کہ ایک نیل گائے قلعہ کے پھاٹک سے ٹکر مار رہی ہے۔ اکیدر فوراً اس کے پیچھے دوڑا، ادھر سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آپہنچے، اکیدر کا بھائی حسان مارا گیا، اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکیدر کو گرفتار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔
اکیدر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو ہزار اونٹ، آٹھ سو گھوڑے، چار سو زرہیں اور چار سو نیزے دینے کا معاہدہ کرکے صلح کی اور جزیہ ادا کرکے اسلامی ریاست کے زیر دست رہنا منظور کیا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/
Featured products
بوادر النوادر (3 جلد)۔
₨ 3190.00درس قرآن ڈیلکس ایڈیشن
₨ 8290.00