زبان کی حفاظت کی فضیلت اور سنت

مسنون زندگی قدم بہ قدم

زبان کی حفاظت کی فضیلت اور سنت

منہ پر تعریف

حدیث پاک ہے کہ جب تم منہ پر تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ پر مٹی ڈالو۔

ہنسانے کے لیے جھوٹی بات

جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خرابی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹی باتیں کرتا ہے، خرابی ہے اس کیلئے، خرابی ہے ایسے شخص کیلئے۔ (مسند احمد، دارمی، ترمذی، ابوداؤد)

تمسخر اور مذاق

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ دوسروں کا مذاق اُڑاتے ہیں آخرت میں ان کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور انہیں اس کی طرف بلایا جائے گا۔ جب وہ سرکتے سسکتے ہوئے وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔ پھر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا اور اس کی طرف بلایا جائے گا۔
جب وہاں پہنچیں گے تو وہ بھی بند کردیا جائے گا۔ اسی طرح برابر جنت کے دروازے کھولے اور بند کیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ وہ مایوس ہو جائیں گے اور بلانے پر بھی جنت کے دروازے کی طرف نہ جائیں گے۔ (بیہقی، الترغیب والترہیب للمنذری)

غلام پر تہمت

ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اپنے غلام پر تہمت لگائے اس حال میں کہ وہ بے گناہ ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس مالک کی پیٹھ پر کوڑے مارے گا۔ (ابوداؤد)

زبان کی حفاظت کیجئے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ یا تو وہ اچھی اور نیک بات کہے یا خاموش رہے۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک انسان سوچے سمجھے بغیر جب کوئی کلمہ زبان سے کہہ دیتا ہے تو وہ کلمہ اس شخص کو جہنم کے اندر اتنی گہرائی تک گرا دیتا ہے، جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ اور بعد ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض اوقات ایک انسان اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا کوئی کلمہ کہتا ہے، یعنی ایسا کلمہ زبان سے ادا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہے لیکن جس وقت وہ کلمہ زبان سے ادا کرتا ہے، اس وقت اس کو اس کلمہ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا اور لاپروائی سے وہ کلمہ زبان سے نکال دیتا ہے۔
مگر اللہ تعالیٰ اس کلمہ کی بدولت جنت میں اس کے درجات بلند فرما دیتے ہیں اور اس کے برعکس بعض اوقات ایک انسان زبان سے ایسا کلمہ نکالتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہوتا ہے اور وہ شخص لاپروائی میں اس کلمہ کو نکال دیتا ہے لیکن وہ کلمہ اس کو جہنم میں لے جاکر گرا دیتا ہے۔
ایمان لانے کے بعد ایک مرتبہ زبان سے کہہ دیا: ‘‘سبحان اللہ’’ تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس کے ذریعہ میزان عمل کا آدھا پلڑا بھر جاتا ہے، یہ کلمہ چھوٹا ہے لیکن اس کا ثواب اتنا عظیم ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ ‘‘سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم’’ یہ دو کلمے زبان پر تو ہلکے پھلکے ہیں کہ ذرا سی دیر میں ادا ہوگئے لیکن میزان عمل میں بہت بھاری ہیں اور رحمان کو بہت محبوب ہیں۔
بہرحال یہ مشین اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ اگر ذرا سا اس کا رُخ بدل دو اور صحیح طریقے سے اس کو استعمال کرنا شروع کردو، تو پھر دیکھو یہ تمہارے نامۂ اعمال میں کتنا اضافہ کرتی ہے اور تمہارے لیے جنت میں کس طرح گھر بناتی ہے اور تمہیں کس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا مندی عطا کراتی ہے۔
اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور اللہ کے ذکر سے اس زبان کو تر رکھو، پھر دیکھو کس طرح تمہارے درجات میں ترقی ہوتی ہے۔ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ! کون سا عمل افضل ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہے، چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ (ترمذی)

تسلی کا کلمہ کہنا

ایک شخص تکلیف اور پریشانی میں مبتلا تھا، تم نے اس کی پریشانی دور کرنے کے لیے اس سے کوئی تسلی کی بات، کوئی تسلی کا کلمہ کہہ دیا جس کے نتیجے میں اس کو کچھ ڈھارس بندھ گئی، اس کو کچھ تسلی حاصل ہوگئی۔ تو یہ کلمہ کہنا تمہارے لیے عظیم اجر و ثواب کھینچ لایا۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ‘‘من عزی ثکلی کسی بردًا فی الجنّۃ’’ (ترمذی)
یعنی اگر کوئی شخص ایسی عورت کے لیے تسلی کے کلمات کہے جس کا بیٹا گم ہوگیا ہو، یا مرگیا ہو تو اللہ تعالیٰ اس تسلی دینے والے کو جنت میں بیش بہا قیمتی جوڑے پہنائیں گے۔

زبان جہنم میں لے جانے والی ہے

ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے، ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوگی جو اپنی زبان کی کرتوت کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔ مثلاً جھوٹ بول دیا، غیبت کردی، کسی کا دل دکھا دیا، کسی کی دل آزاری کی، دوسروں کے ساتھ غیبت میں حصہ لیا، کسی کی تکلیف پر خوشی کا اظہار کیا وغیرہ۔ جب یہ گناہ کے کام کیے تو اس کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلا گیا۔
حدیث شریف میں فرمایا کہ: ‘‘ھل یکب الناس فی النار علی وجوھھم الاحصائد السنتھم’’ (ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ، حدیث نمبر 2612)
یعنی بہت سے لوگ زبان کے کرتوت کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔ لہٰذا یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے، اگر اس کو ذرا دھیان سے استعمال کرو، اس کو قابو میں رکھو، بے قابو مت چھوڑو اور اس کو صحیح کاموں میں استعمال کرو، اس لیے فرمایا کہ زبان سے یا تو صحیح بات بولو ورنہ خاموش رہو۔ اس لیے کہ خاموشی اس سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ آدمی غلط بات زبان سے نکالے۔

زبان پر قابو پانے کا علاج

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے افضل انسان ہیں، وہ ایک مرتبہ اپنی زبان کو پکڑے بیٹھے تھے اور اس کو مروڑ رہے تھے، لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ‘‘ان ھذا اوردنی الموارد’’ (مؤطا امام مالک )
یعنی اس زبان نے مجھے بڑی ہلاکتوں میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے میں اس کو قابو کرنا چاہتا ہوں۔ بعض روایات میں مروی ہے کہ اپنے منہ میں کنکریاں ڈال کر بیٹھ گئے، تاکہ بلا ضرورت زبان سے بات نہ نکلے۔

خواتین اور زبان کا استعمال

یوں تو سارا معاشرہ اس زبان کے گناہوں میں مبتلا ہے لیکن احادیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے اندر جن بیماریوں کے پائے جانے کی نشان دہی فرمائی، ان میں سے ایک بیماری یہ بھی ہے کہ زبان ان کے قابو میں نہیں ہوتی۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے خواتین! میں نے اہل جہنم میں سب سے زیادہ تعداد میں تم کو پایا، یعنی جہنم میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ خواتین نے پوچھا
یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟۔
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ: ‘‘تکثرن اللعن و تکفرن العشیر’’ (صحیح بخاری)
تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہروں کی ناشکری بہت کرتی ہو، اس وجہ سے جہنم میں تمہاری تعداد زیادہ ہے۔ دیکھئے اس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دو باتیں بیان فرمائیں، ان دونوں کا تعلق زبان سے ہے۔ لعنت کی کثرت اور شوہر کی ناشکری۔
معلوم ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے اندر جن بیماریوں کی تشخیص فرمائی، اس میں زبان کے بے جا استعمال کو بیان فرمایا کہ یہ خواتین زبان کو غلط استعمال کرتی ہیں۔
مثلاً کسی کو طعنہ دے دیا، کسی کو برا کہہ دیا، کسی کی غیبت کردی، کسی کی چغلی کھالی، یہ سب اس کے اندر داخل ہے۔

میں جنت کی ضمانت دیتا ہوں

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت اور گارنٹی دے دے تو میں اس کو جنت کی گارنٹی دیتا ہوں، ایک اس چیز کی گارنٹی دے دے جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے یعنی زبان کہ یہ غلط استعمال نہیں ہوگی اس زبان سے جھوٹ نہیں نکلے گا، غیبت نہیں ہوگی۔
دل آزاری کسی کی نہیں ہوگی، وغیرہ وغیرہ اور ایک اس چیز کی ضمانت دے جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے یعنی شرمگاہ کہ اس کو غلط جگہ پر استعمال نہیں کروں گا تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ زبان کی حفاظت دین کی حفاظت کا آدھا باب ہے اور آدھا دین زبان کے اندر ہے، آدھے گناہ زبان کے ذریعہ ہوتے ہیں اس لیے اس کی حفاظت ضروری ہے۔

نجات کے لیے تین کام

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! نجات کا کیا طریقہ ہے؟ یعنی آخرت میں عذاب جہنم سے نجات ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی عطا فرما دیں اور جنت میں داخلہ فرما دیں۔ اس کا کیا طریقہ ہے؟۔
تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں تین جملے ارشاد فرمائے۔
پہلا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ تم اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھو، زبان بے قابو نہ ہونے پائے اور دوسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہو جائے۔
یعنی اپنا زیادہ وقت گھر میں گزارے، فضول اور بلاوجہ تمہیں گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں۔ صرف ضرورت کے تحت گھر سے باہر جاؤ، بلا ضرورت باہر مت جاؤ تاکہ باہر جو فتنے ہیں، ان کے اندر مبتلا نہ ہو جاؤ۔

گناہوں پر روؤ

اور تیسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی غلطی کوئی گناہ یا خطا تم سے سرزد ہو جائے تو اس غلطی پر رو، رونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے توبہ کرو اور اس پر ندامت کا اظہار کرکے استغفار کرو۔ رونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پر واقعتہً رووو، جیسے ابھی چند روز پہلے ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ مجھے رونا آتا ہی نہیں ہے، اس لیے میں پریشان ہوتا ہوں۔
اصل بات یہ ہے کہ اگر خود سے غیراختیاری طور پر رونا نہ آئے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن گناہ پر دل سے نادم ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرے کہ یااللہ! مجھ سے غلطی ہوگئی، آپ معاف فرما دیں۔

اے زبان !اللہ سے ڈرنا

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے جسم کے اندر جتنے اعضاء ہیں، وہ سب زبان سے مخاطب ہوکر یہ کہتے ہیں کہ اے زبان! تو اللہ سے ڈرنا، اس لیے کہ ہم تو تیرے تابع ہیں، اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کا سارا جسم زبان کے تابع ہوتا ہے، اگر زبان نے غلط کام کرنا شروع کردیا تو اس کے نتیجے میں سارے کا سارا جسم گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس لیے وہ زبان سے کہتے ہیں کہ تو سیدھی رہنا ورنہ تیرے کرتوت کی وجہ سے ہم بھی مصیبت میں پھنس جائیں گے۔

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 427 تا 432

Written by Huzaifa Ishaq

16 October, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments