آپس کے معاملات میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی معاملے کی تکمیل کے لیے دونوں فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ کسی ایک جانب کے کہہ دینے سے دوسرا شخص اس معاملے کو قبول کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں یہ غلط رواج عام ہوگیا ہے کہ بغیر دوسرے کی رضامندی کے کوئی خرچہ اُس پر ڈال دیا جاتا ہے ۔(اور ایسے طریقے سے ڈالا جاتا ہے کہ وہ رد بھی نہیں کرسکتا اور قبول بھی نہیں کرسکتا۔ مجبوراً اُسکو دینا ہی پڑجاتاہے) یہ عمل اخلاقی اور شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
1)کاروباری معاملات میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ دکاندار یا ریڑھی والے بغیر وضاحت کے خرید و فروخت کرتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ نے ایکپھل دیکھا جس کی قیمت اڑھائی سو روپیہ فی کلو تھی۔آپ نے قیمت کم کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ یہ فروٹ مجھے دوسو روپیہ فی کلو میں دے دو۔ ریڑھی بان نے خاموشی سے ایک کلو فروٹ باندھ دیا اور دو سو روپیہ لے لئے۔ پھر جاتے ہوئے آپکو پیچھے سے آوز دے کر کہہ دیا کہ پچاس روپیہ بعد میں دے جانا۔ تو اب یہ پچاس روپیہ آپکے ذمہ نہیں ہیں۔ یہ بغیر رضامندی کے آپ پر ڈال دئیے گئےہیں۔
2) جبری خرچے کی دوسری مثال : اگرکسی شخص نے آپکے ذمہ کام لگایا اور آپ نے کہہ دیا کہ میں پچاس ہزار روپیہ میں یہ کام مکمل کردوں گا۔ بعدازاں آپ نے وہ کام مکمل ہونے کے بعد ستر ہزار روپیہ کا مطالبہ رکھ دیا تو یہ بھی ایک غیر اخلاقی عمل ہے، اگرچہ اضافی پیسے خرچ ہوئےہیں۔ مگردوستویاد رکھیں! اضافی اخراجات کی اطلاع پہلے دینا ضروری ہے تاکہ دوسرا فریق اس کوبروقت قبول یا رد کر سکے۔
میرے ساتھ بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جب میں نے ایک جلد ساز کو کتاب جلد کرنے کے لئے دی۔ مجھے اُنہوں نے مکمل کتاب بنا کر دے دی۔ مگر جب میں نے پیسے دینا چاے تو اُنہوں نےطے شدہ رقم کے علاوہ بعد میں اضافی رقم کا مطالبہ کیا گیا، جو کہ غیر منصفانہ عمل تھا۔ انہوں نے مجھے کافی سمجھانے کی کوشش کی کہ فلاں فلاں خرچ ہوئے ہیںمگر میں نے یہ اضافی رقم دینے سے انکار کردیا کیونکہ یہ اخلاقی اور شرعی طور پر درست نہیں تھا۔اگر کام میں کوئی اضافی محنت لگ رہی تھی تو مجھے اُسی وقت مطلع کرنا چاہئے تھا (تاکہ میں قبول یا رد کرنے کا اختیار استعمال کرسکوں)مگر یہ ایک انتہائی غلط طریقہ ہے کہ کام خاموشی سے مکمل کردو اور پھردوسرے شخص کو مجبور کرو کہ اب زیادہ پیسے تو دینے ہی پڑیں گے!!!
ان تمام مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپسی معاملات میں رضامندی اور وضاحت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جبراً کسی پر خرچہ ڈالنا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ شرعی لحاظ سے بھی گناہ ہے۔ معاملات کو خوش اسلوبی سے نبھانے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سب کچھ طے کریں اور اس کی پابندی کریں۔ اگر بعد میں خدانخواستہ نفع یا پھر نقصان ہو جائے تو یہ زندگی کا حصہ ہیں اور ان کو تسلیم کرنا چاہئے۔مگر دوسرے پر مسلط نہیں کرنا چاہئے۔
مدارس کی رجسٹریشن کے تنازع اور مہتمم حضرات کے لیے رہنمائی
مدارس کی رجسٹریشن کے تنازع اور مہتمم حضرات کے لیے رہنمائی پاکستان میں مدارس کی رجسٹریشن کے حالیہ تنازع نے تعلیمی اور...