شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم

Khutbat e Dora e Hind

حیات وخدمات
از: مرتب

پیدائش و نام ونسب

آپ کا نام نامی اسم گرامی محمد تقی عثمانی بن حضرت مولانامفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب صحابی رسول اور خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ سے جا کر ملتا ہے۔ اس لئے آپ کے نام کے ساتھ عثمانی کا اضافہ ہے۔ آپ کی پیدائش ہندوستان کی مقدس سر زمین دیو بند میں بتاریخ ۱۵شوال المکرم ۱۳۶۲ھ مطابق ۳ اکتوبر ۱۹۴۳ء میں ہوئی۔

جدامجد اور والد ماجد رحمہما اللہ تعالی

آپ کے جد امجد حضرت مولانا محمد یاسین صاحب کا شمار اپنے زمانے کے کبار علماء وادباء میں ہوتا ہے ۔ نیز آپ کو دارالعلوم دیو بند کے اولین طلباء میں شامل ہونے اورا کا بر اسا تذہ کرام خصوصاً حضرت مولانامحمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا سید احمد دہلوی ، حضرت ملا محمود  رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ تعالی علیہ دیو بندی سے اکتساب فیض کے ساتھ ساتھ تقریبا 40 سال تک دارالعلوم دیوبند میں شعبۂ فارسی کے صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا شرف حاصل ہے۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب کی ولادت بھی دیوبندی میں 1314ھ میں ہوئی ۔ حضرت نے بھی دارالعلوم ہی سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا ، اپنے زمانے کے اکابر اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور مایہ ناز عالم دین ،عظیم مفسر اور بے مثال فقیہ و مفتی بنے ، بعدہ دارالعلوم دیوبند ہی میں مختلف علوم وفنون کی تدریس کے ساتھ ساتھ صدر مفتی کی حیثیت سے بے مثال خدمات انجام دیں۔

ابتدائی تعلیم اور پاکستان کی طرف ہجرت

آپ کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر والدین محترمین کی زیرنگرانی ہوئی ۔آپ کی عمر ابھی پانچ سال ہی کی تھی کہ تقسیم ہند عمل میں آئی۔ چونکہ آپ کے والد محترم پاکستان کے حامی تھے اسلئے انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان کی طرف ہجرت کی ۔ چنانچہ آپ کا خاندان یکم مئی ۱۹۴۸ءکو دیوبند سے نکل کر 3 مئی کو کراچی پہنچا۔ اس طرح آپ کا وطن کراچی ہو گیا ۔ آپ کے والد محترم نے کراچی پہنچ کر ایک عظیم ادارہ جامعہ دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی ۔

تعلیم وتربیت

پاکستان پہنچنے کے بعد آپ نے دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا، اولاً کچھ فارسی اور اردو اسباق پڑھنے کے بعد درس نظامی کی تکمیل کی ۔ فقہ تفسیر واصول تفسیر ، ادب ،افتاء اور حدیث کے علوم بڑی محنت ، انہماک، سچی لگن اور تڑپ کے ساتھ کما حقہ حاصل کئے ۔ بعدہ اپنے والد محترم کے حکم پر عصری علوم کی طرف توجہ دی ۔ مولا نا ابن الحسن عباسی اپنی کتاب متاع وقت اور کاروان علم میں رقم طراز ہیں کہ عصری علوم میں’ 1958ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کیا ۱۹۶۴ء میں کراچی یونیورسٹی سے بی ۔اے ۔ کا امتحان دیا 1974میں کراچی یونیورسٹی سے ایل ۔ ایل ۔ بی ۔ کا امتحان دوسری پوزیشن اور 1970ء میں ایم ۔اے ۔ عربی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پہلی پوزیشن میں پاس کیا۔ جدید معاشیات کا مطالعہ کیا اور اس میں مہارت ہی نہیں بلکہ مجتہدانہ بصیرت حاصل کی’ نیز آپ نے عالمی سطح پر بولی جانے والی زبانیں انگریزی ،عربی اور اردو میں خوب دسترس حاصل کی ۔اس طرح آپ قدیم وجدید دنیوی اور دینی علوم و معارف کا ایک مخزن بن گئے ۔

بیعت وسلوک

علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ باطنی وروحانی کمالات سے بھی آراستہ ہونے کے لئے آپ نے سب سے پہلے اس دور کے ولی کامل ، سلسلہ امدادیہ کے چشم و چراغ حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ اجل حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی سے رجوع کیا، ایک لمبا عرصہ حضرت سے مستفیض ہوتے ہوۓ اپنے باطن کی اصلاح وتزکیہ کیا۔ حضرت کے اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کر جانے کے بعد حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے دوسرے مشہور خلیفہ حضرت مولانا شاہ مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی رحمہ اللہ  کی صحبت سے فیض یاب ہوکر شرف خلافت سے مشرف ہوۓ ۔

کارنامے

آپ کی زندگی بے شمار کارناموں سے مزین ہے ۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں کامیابی اور فوز وفلاح جن کے قدم چومتی ہے ۔ آپ کی عبقری شخصیت نے ایسے کارہائے نمایاں اور عظیم خدمات انجام دی ہیں اور دے رہی ہے جس کی نظیر موجودہ دور میں ناممکن تو نہیں لیکن محال ضرور ہے ۔

درس و تدریس /تصنیف و تالیف

علوم دینیہ وعصر ی کے حصول سے فراغت کے بعد جامعہ دارالعلوم کراچی کی مسند تدریس پررونق افروز ہوۓ، اور انتہائی کامیاب مدرس کے طور پر اپنی پہچان بنائی ۔ آپ کا ترمذی شریف کا درس بے انتہاء مقبول ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی جلدوں میں ان دروس کا مجموعہ شائع ہوکر طلباء وعلماء مدارس میں بے انتہا مقبول ہوا۔ درس ترندی کی مقبولیت کے بعد بخاری شریف آپ سے متعلق ہوئی تو اس کے دروس سے تشنگان علوم کو خوب سیراب کیا اور علوم معارف کے موتی بکھیر دیئے۔ ان دروس کا مجموعہ بھی انعام الباری کے نام سے کئی جلدوں میں شائع ہوکر مقبولیت کے اعلی درجہ پر فائز ہوا۔ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف بھی آپ کا محبوب مشغلہ ہے۔ آپ کے قلم سے متعدد اور اہم موضوعات پر گراں قدر کتابیں شائع ہوکر تشنگان علوم کو سیراب کر رہی ہیں ۔ آپ کا ایک اہم علمی کارنامہ حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی کی کتاب فتح الملهم شرح صحیح مسلم کی تکملہ ہے جس کو آپ نے تکملہ فتح الملہم کے نام سے چھ ضخیم جلدوں میں تقریبا چار ہزار صفحات پر لکھا ہے۔ اور علمی دنیا میں زبردست خراج تحسین حاصل کی ہے ۔ چنانچہ موجودہ دور کے مایہ ناز عرب عالم دین علامہ یوسف القرضاوی حفظه اللہ نے آپ کی تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم کی یوں تعریف و توصیف کی ہے ” میں نے اس شرح میں کئی نمایاں خصوصیتیں پائی ہیں منجملہ ان کے محدث کا حسن ،فقیہ کا ملکہ،معلم کی سوچ ، قاضی کا تدبر ، حالات پر بھر پور نظر ، ہر پہلو میں ہمہ گیر فکر ہے ۔ میں نے مسلم شریف کی بہت سی شروحات دیکھی ہیں لیکن مولا نامفتی محمدتقی عثمانی کی شرح واقعی بلند و بالا اور شان وشوکت والی ہے، اس کے علاوہ آپ نے کئی چھوٹی بڑی کتابیں اردو، انگریزی اور عربی میں تصنیف فرمائی ہیں ۔ آپ کا شمار کثیر التصانیف علماء میں ہوتا ہے۔ نیز پاکستان کے مشہور مجلہ ماہنامہ’’البلاغ‘‘ کو آپ کی ادارت کی سعادت حاصل ہے۔

 آپ کی شخصیت مشاہیر کی نظر میں

جامعہ دارالعلوم کراچی کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولا ناسحبان محمود صاحب  رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” جب یہ میرے پاس پڑھنے کے لئے آۓ تو بمشکل ان کی عمر گیارہ بارہ سال تھی مگر اس وقت سے ان میں زہد و تقوی کے آثارمحسوس ہونے لگے ، رفتہ رفتہ ان کی صلاحیتوں میں ترقی اور برکت ہوتی رہی ۔ آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ’ ایک دن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے مجھ سے مجلس خاص میں مولا نا محمدتقی عثمانی صاحب کا تذکرہ آنے پر کہا کہ تم محمدتقی کو کیا سمجھتے ہو یہ مجھ سے بھی بہت اوپر ہیں اور یہ حقیقت ہے۔

اپنے والد ماجد کی حیات ہی میں آپ نے ایک کتاب بنام “علوم القرآن‘ تصنیف فرمائی ۔اس پر آپ کے والد ماجد نے غیر معمولی تقریظ لکھی ہے ۔ اکابرین کی عادت ہے کہ جب کسی کتاب کی تعریف کرتے ہیں تو جانچ تول کر بہت جچے تلے انداز میں کرتے ہیں کہ کہیں مبالغہ نہ ہومگر حضرت مفتی محمد شفیع صاحب علوم القرآن کے پیش لفظ میں صفحہ: ۱۴ پر لکھتے ہیں کہ ” یہ مکمل کتاب ماشاءاللہ ایسی ہے کہ اگر میں خودبھی اپنی تندرستی کے زمانے میں لکھتا تو ایسی نہ لکھ سکتا تھا جس کی دو وجہیں ظاہر ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ عزیز موصوف نے اس کی تصنیف میں جس تحقیق و تدقیق اور متعلقہ کتابوں کے عظیم ذخیرہ کے مطالعہ سے کام لیا ہے وہ میرے بس کی بات تھی ۔ جن کتابوں سے مضامین لئے گئے ہیں ان سے ماخذوں کے حوالے بقید ابواب وصفحات حاشیہ میں درج ہیں، انہیں پر سرسری نظر ڈالنے سے ان کی تحقیقی کاوش کا اندازہ ہوسکتا ہے اور دوسری وجہ جو اس سے بھی زیادہ ظاہر ہے وہ یہ کہ میں انگریزی زبان سے ناواقف ہونے کی بنا پر مستشرقین یورپ کی ان کتابوں سے بالکل ہی ناواقف تھا جن میں انہوں نے قرآن کریم اور علوم قرآن کے متعلق زہر آلود تلبیسات سے کام لیا ہے۔ برخوردار عزیز نے چونکہ انگریزی میں ایم ۔اے، ایل ایل بی ۔ اعلی نمبرات سے پاس کیا ہے اس لئے انہوں نے ان تلبیسات کی حقیقت کھول کر وقت کی اہم ضرورت پوری کر دی۔

شیخ عبدالفتاح ابوغده رحمہ اللہ  تكملۃ فتح الملهم جلد:۱،صفحہ:۴ میں اپنی تقریظ میں آپ کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ  اپنی کتاب شرح صحیح مسلم جس کا نام فتح الملهم بشرح صحيح مسلم ہے، کی تکمیل سے قبل ہی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے تو ضروری تھا کہ آپ کے کام اور اس حسن کارکردگی کو پایہ تکمیل تک پہنچا ئیں اس بنا پر ہمارے شیخ علامہ مفتی اعظم حضرت مولا نا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ نے اپنے ذہین وذ کی فرزند محدث جلیل فقیہ ادیب واریب مولانامحمدتقی عثمانی کی اس سلسلہ میں ہمت وکوشش کو ابھارا کہ فتح الملهم بشرح صحیح مسلم کی تکمیل کر یں کیونکہ شیخ ، شارح حضرت علامہ شبیر احد عثمانی رحمہ اللہ کے مقام کو خوب جانتے تھے اور اس کو بھی بخوبی جانتے تھے کہ اس با کمال فرزند کے ہاتھوں انشاءاللہ یہ خدمت کماحقہ انجام کو پہنچے گی ۔

اسفار اورمنفرد خصوصیات

دعوت واصلاح اور تبلیغ وارشاد کی غرض سے تقریبا آپ نے پوری دنیا کا سفر کیا ہے ۔ آپ کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ سفر سے واپسی کے وہاں کے حالات ومشاہدات قلم بند فرماتے ہیں ، وہ صرف سفرنامہ ہی نہیں بلکہ معلومات کا ایک خزانہ ہوتے ہیں۔ آپ کے سفرناموں میں زبان و بیان کی حلاوت کے ساتھ ساتھ ایسی دلچسپ منظر کشی بھی ہوتی ہے کہ پڑھنے والا دنیا و مافیھا سے بے خبر ہوکر ایسا محسوس کرتا ہے گویا وہ مناظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وقت کی قدر اور راہ علم میں محنت کا جذ بہ آپ کو اپنے والد ماجد سے ورثہ میں ملا ہے ۔ آپ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرتے ہیں ، کوئی لمحہ رائیگاں اور ضائع نہیں جانے دیتے ۔حتی کہ سفر کے دوران بھی آپ لکھنے اور مطالعہ وغیرہ میں مصروف رہتے ہیں ۔

آپ کی شخصیت جہاں ایک کامیاب مدرس ،عظیم مفتی اور لا جواب مصنف کی ہے، وہیں آپ ایک کامیاب قانون دان اور قانون ساز بھی ہیں ۔اس لئے جنرل ضیاء الحق کے دور میں آپ قانون ساز کمیٹی کے ایک اہم رکن بھی رہے ہیں۔ مزید 1980ء تا 1982، فیڈرل شریعہ کورٹ آف پاکستان کے جج کے اہم عہدہ پر فائز رہے۔

نیز آپ ایک ماہر معاشیات بھی ہیں ، بایں وجہ اس موضوع سے آپ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے۔اسی کی روشنی میں آپ نے
(Islamic Banking)
  کا نظریہ پیش کیا اور دنیا کے کئی ممالک میں آپ کے تعاون اور سر پرستی میں اس کے مراکز قائم ہوۓ جو کامیابی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔

بے مثال خطیب

وعظ ونصیحت کے میدان میں بھی آپ کا نام بہت نمایاں ہے ۔ آپ کراچی کی مشہور جامع مسجد بیت المکرم کے خطیب ہیں ۔آپ کے تلامذہ نے آپ کے علم وحکمت سے لبریز سحر آفرین ، بے مثال اور عام فہم خطبات کو’ اصلاحی خطبات‘ کے نام سے جمع کر کے شائع کیا ہے ۔ جو حد درجہ مقبول خاص و عام ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ آپ ایک محدث جلیل ، ما می ناز ادیب عظیم شاعر اور اپنے والد محترم کے علمی وعملی وارث ہیں ۔

خلاصہ کلام

خلاصہ کلام یہ کہ آپ نے اپنی عمر کی پانچ دہائیوں میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کہ جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ دینی علمی ،ادبی ، سیاسی اور قانونی خدمات میں آپ کا ثانی نہیں ۔معاشیات کے میدان میں قدم رکھا تو اسلامی معاشیات میں اپنا لوہا منوالیا۔ سیاست میں آۓ تو ایک کامیاب سیاست دان بنے ۔ قانون میں قدم رکھا تو قانون کے سب سے بڑے عہدہ جج کے مقام پر فائز ہوئے ۔ مسند درس پر رونق افروز ہوۓ تو ایک انتہائی لائق و فائق ، کامیاب و کامران استاذ کی حیثیت حاصل کی ۔آپ کی ایسی عبقری شخصیت کی وجہ سے پوری دنیا میں آپ کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے، دنیا کے کئی اعلی مناصب اور عہدے آپ کی صحبت بابرکت سے اپنی سعادت مندی پر ناز کر رہے ہیں ۔ رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ آپ کی خدمات کا سلسلہ اسی طرح جاری وساری رہے ۔ آپ کےفضل و کمال ،عمر وصحت میں اضافہ اور خوب برکت ہوتی رہے ۔آمین ۔

عہدہ جات اور مناصب

آپ کے سابقہ اور موجودہ عہدہ جات ومناصب حسب ذیل ہیں۔

 جسٹس                                   سپریم کورٹ پاکستان شریعت اپلیٹ بینچ 1982 تا 2002ء

 رکن وسابق نائب صدر:              او آئی سی (منظمة المؤتمر الاسلامی ) کے اہم ادارے اسلامک فقہ اکیڈمی (مجمع الفقه الاسلامی) جدہ سعودی عرب

نائب صدر:                             جامعہ دارالعلوم کراچی

صدر:                                   مجلس الشرعی ، بحرین۔

نیز مختلف مالیاتی اداروں کے شریعہ بورڈ کے صدر بارکن ۔                                          

لیکن ان تمام خوبیوں ، مناصب جلیلہ و درجات رفیعہ اور فضل و کمالات کے باوجود آپ تکلف سے کوسوں دور ہیں، اور ایسی پروقار اور مثالی سادگی کے حامل ہیں کہ آپ کو دیکھ کر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی صفات عظیمه اقلهم تكلفا ، اعمقهم علما ، ابرهم قلوبا کی یادتازہ ہو جاتی ہے ۔

کتاب کا  نام: خطبات دورہ ہند
صفحہ نمبر: 25 تا 31

Written by Huzaifa Ishaq

26 September, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments