مہمان نوازی کی ہدایات اور سنتیں

مسنون زندگی قدم بہ قدم

مہمان نوازی کی ہدایات اور سنتیں

۔(1)۔ مسلمانوں کے لیے سنت ہے کہ جب آپس میں ملیں تو سلام کریں، آنے والے مہمان کو اس میں پیش قدمی کرنی چاہیے اور دوسروں کو جواب دینا چاہیے۔

۔(2)۔ مہمان نوازی کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مہمان کے آتے ہی جو کچھ کھانے پینے کی چیز میسر ہو اور جلدی سے مہیا ہوسکے وہ لا رکھے۔ پھر اگر صاحب وسعت ہے تو مزید مہمانی کا انتظام بعد میں کرے۔

۔(3)۔ مہمان نوازی کے لیے بہت زیادہ تکلفات کی فکر میں نہ پڑے، آسانی سے جو اچھی چیز میسر ہو جائے وہ مہمان کی خدمت میں پیش کرے۔

۔(4)۔ مہمان کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مہمان کے سامنے جو چیز پیش کی جائے۔ اس کو قبول کرے، کھانے کو دل نہ چاہے تو معمولی سی شرکت کرکے دلجوئی کرلے۔ اگر کوئی چیز اس کے لیے مضرصحت ہے تو احسن طریقے سے عذر کردے۔

۔(5)۔ میزبان کو چاہیے کہ صرف کھانا وغیرہ سامنے رکھ کر فارغ نہ ہو جائے بلکہ اس پر نظر رکھے کہ مہمان کھا رہا ہے یا نہیں ؟ مگر یہ نظر رکھنا اس طرح ہو کہ مہمان کے کھانے (پینے) کو تکتا نہ رہے۔ سرسری نظر سے دیکھ لے کیونکہ مہمان کے لقموں کو دیکھنا آداب ضیافت کے خلاف اور مہمان کے لیے باعث شرمندگی ہوتا ہے۔

۔(6)۔ اکابر بزرگ اور مہمان کی سواری کی رکاب اور لگام کو ازراہ تواضع اور خاطر داری پکڑنا نیز مہمان کو رُخصت کرنے کے لیے مکان کے دروازے یا باہر کچھ دور تک اس کے ساتھ جانا مسنون ہے۔ (مظاہر حق)

۔ (7)۔ میزبان کا نیک و صالح مہمان سے طلب دُعا کرنا اور مہمان کا میزبان کے لیے دُعا کرنا مسنون ہے۔ (مظاہر حق)

۔(8)۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس گھر میں (مہمانوں کو) کھانا کھلایا جاتا ہے۔ وہاں خیر (یعنی رزق و برکت اور بھلائی) اتنی تیزی سے پہنچتی ہے جس طرح اونٹ کا گوشت کاٹنے میں چھری تیزی سے کوہان کی طرف جاتی ہے۔ (ابن ماجہ)

۔ (9)۔ حضرت ابی الاحوص جشمی اپنے والد (حضرت مالک بن فضلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا:۔ یارسول اللہ! اگر میں کسی شخص کے ہاں مہمان ہوں اور وہ میری مہمان داری نہ کرے اور میری ضیافت کا حق ادا نہ کرے ، پھر وہ شخص میرے ہاں مہمان ہو تو کیا۔ اس کی مہمانداری کروں یا اس سے بدلہ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں اس سے بدلہ نہ لو)بلکہ اس کی مہمانداری کرو۔ (ترمذی)

۔(10)۔ آنے والوں کی مہمانی کرنا آداب اسلام اور مکارم اخلاق میں سے ہے۔ نیز انبیاء و صلحاء کی عادت ہے۔

۔(11)۔ حدیث میں فرمایا: ‘‘فلیکرم ضیفہ جائزتہ’’ مہمان کی اس خاص خاطر داری اور تواضع و مدارت کو کہا گیا ہے جو پہلے دن کی جاتی ہے۔ اکرام ضیف یعنی مہمان کے ساتھ حسن و سلوک سے پیش آئے اور خوش گفتاری اور ملاطفت کے ساتھ بات چیت کرے اور اس کو تین دن تک اس طرح کھلائے پلائے کہ پہلے دن تو اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق کچھ پُرتکلف میزبانی کرے۔ بشرطیکہ اس کی وجہ سے اپنے لواحقین کی حق تلفی نہ ہو اور اس کے بعد دو دنوں میں جو حاضر ہو پیش کرے۔

پھر تین دن کے بعد بھی مہمان ٹھہرا رہے تو اس کو کھلانا پلانا صدقہ کے حکم میں ہوگا کہ میزبان چاہے تو کھلائے پلائے اور چاہے تو معذرت کردے اور مہمان کو تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہیے (الایہ کہ میزبان روکے یا کوئی مجبوری ہو تو میزبان کی اجازت سے ٹھہرنا چاہیے)۔ (بخاری)

Written by Huzaifa Ishaq

15 October, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments