خلافت عمر کے دوران مثالی گورنر

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ایک گورنر حضرت سعید بن عامر بن حذیم جمحی رضی اللہ عنہ کا قصہ

حضرت خالد بن معدانؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید بن عامر بن حذیم جمحی رضی اللہ عنہ کو حمص پر ہمارا گورنر بنایا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب حمص تشریف لائے تو فرمایا اے حمص والو! تم نے اپنے گورنر کو کیسا پایا؟
اس پر انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنے گورنر کی شکایتیں کیں (چونکہ حمص والے بھی اپنے گورنر کی ہمیشہ شکایت کیا کرتے تھے اس وجہ سے حمص کو چھوٹا کوفہ کہا جاتا تھا)۔
انہوں نے کہا ہمیں ان سے چار شکایتیں ہیں۔
پہلی تو یہ ہے کہ جب تک اچھی طرح دن نہیں چڑھ جاتا اس وقت تک یہ ہمارے پاس گھر سے باہر نہیں آتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واقعی یہ تو بہت بڑی شکایت ہے۔
اس کے علاوہ اور کیا؟ انہوں نے کہا یہ رات کو کسی کی بات نہیں سنتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بھی بڑی شکایت ہے۔
اس کے علاوہ اور کیا؟
انہو ں نے کہا مہینے میں ایک دن گھر میں ہی رہتے ہیں۔ ہمارے پاس باہر آتے ہی نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بھی بڑی شکایت ہے۔
اس کے علاوہ اور کیا؟
انہوں نے کہا کبھی کبھی ان کو موت جیسی بے ہوشی کا دورہ پڑتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حمص والوں کو اور ان کے گورنر کو ایک جگہ جمع کیا اور یہ دعا مانگی۔ اے اللہ! سعید بن عامر کے بارے میں (اچھے ہونے کا) میرا جو اندازہ تھا آج اسے غلط نہ ہونے دے۔ اس کے بعد حمص والوں سے فرمایا:۔
تمہیں ان سے کیا شکایت ہے؟
انہوں نے کہا جب تک اچھی طرح دن نہیں چڑھ جاتا اس وقت تک یہ گھر سے ہمارے پاس باہر نہیں آتے۔ حضرت سعید نے کہا اللہ کی قسم! اس کی وجہ بتانا مجھے پسند نہیں تھی لیکن اب میں مجبوراً بتاتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میرے گھر والوں کا کوئی خادم نہیں ہے اس لئے میں خود آٹا گوندھتا ہوں پھر اس انتظار میں بیٹھتا ہوں کہ آٹے میں خمیر پیدا ہو جائے۔ پھر میں روٹی پکاتا ہوں۔ پھر وضو کر کے گھر سے باہر ان لوگوں کے پاس آتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:۔
تمہیں ان سے اور کیا شکایت ہے؟
انہوں نے کہا یہ رات کو کسی کی بات نہیں سنتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا (اے سعید!) آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
حضرت سعید نے کہا اس کی وجہ بتانا بھی مجھے پسند نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ میں نے دن اور رات کو تقسیم کیا ہے۔ دن ان لوگوں کو دیا ہے اور رات اللہ تعالیٰ کو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہیں ان سے اور کیا شکایت ہے؟
انہوں نے کہا مہینے میں ایک دن یہ ہمارے پاس باہر نہیں آتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ حضرت سعید نے کہا نہ تو میرے پاس کوئی خادم ہے جو میرے کپڑے دھو دے اور نہ میرے پاس اور کپڑے ہیں جنہیں پہن کر میں باہر آ سکوں۔ اس لئے میں اپنے کپڑے دھوتا ہوں پھر ان کے سوکھنے کا انتظار کرتا ہوں۔
جب سوکھ جاتے ہیں تو وہ موٹے ہونے کی وجہ سے سخت ہو جاتے ہیں اس لئے میں ان کو رگڑ رگڑ کر نرم کرتا ہوں۔ سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے پھر انہیں پہن کر شام کو ان لوگوں کے پاس باہر آتا ہوں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تمہیں ان سے اور کیا شکایت ہے؟
انہوں نے کہا انہیں کبھی کبھی بے ہوشی کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
حضرت سعید نے کہا حضرت خبیب انصاری رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت میں مکہ میں موجود تھا۔
پہلے قریش نے ان کے گوشت کو جگہ جگہ سے کاٹا پھر ان کو سولی پر لٹکایا اور کہا کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری جگہ محمدؐ ہوں (تمہاری جگہ ان کو سولی دے دی جائے) حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے کہا:۔
اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے اہل و عیال میں ہوں اور ( اس کے بدلہ میں) حضرت محمدؐ کو ایک کانٹا چبھے اور پھر (حضورؐ کی محبت کے جوش میں آ کر) زور سے پکارا یا محمد!۔
جب بھی مجھے وہ دن یاد آتا ہے کہ میں نے اس حالت میں ان کی مدد نہیں کی اور میں اس وقت مشرک تھا اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لایا تھا تو میرے دل میں زور سے یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس گناہ کو کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ بس اس خیال سے مجھے بے ہوشی کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جوابات سن کر فرمایا:۔
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے میری فراست کو غلط نہیں ہونے دیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس ہزار دینار بھیجے اور فرمایا انہیں اپنے کام میں لے آؤ۔
اس پر ان کی بیوی نے کہا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں آپ کی خدمت سے بے نیاز کر دیا۔ حضرت سعید نے کہا کیا تم اس سے بہتر بات چاہتی ہو؟
کہ ہم یہ دینار اسے دے دیتے ہیں جو ہمیں سخت ضرورت کے وقت دے دے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ انہو ں نے اپنے گھر والوں میں سے ایک آدمی کو بلایا جس پر انہیں اعتماد تھا اور ان دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں ڈال کر اس سے کہا جا کر یہ دینار فلاں خاندان کی بیواؤں، فلاں خاندان کے یتیموں، فلاں خاندان کے مسکینوں اور فلاں خاندان کے مصیبت زدہ لوگوں کو دے آؤ۔ تھوڑے سے دینار بچ گئے تو اپنی بیوی سے کہا لو یہ خرچ کر لو۔ پھر اپنے گورنری کے کام میں مشغول ہو گئے۔ چند دن بعد ان کی بیوی نے کہا کیا آپ ہمارے لئے کوئی خادم نہیں خرید لیتے؟
اس مال کا کیا ہوا؟ حضرت سعید نے کہا وہ مال تمہیں سخت ضرورت کے وقت ملے گا۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 515 – 517

Written by Huzaifa Ishaq

29 October, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments