حضرت عمر کو خلافت دیتے وقت وصیت

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرات خلفاء کرام کا دیگر خلفاء و امراء کو وصیت کرنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وصیت کرنا

حضرت اغر، اغر بنی مالکؒ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا چاہا تو انہوں نے آدمی بھیج کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ جب وہ آ گئے تو ان سے فرمایا:۔
۔”میں تمہیں ایک ایسے کام کی طرف بلانے لگا ہوں کہ جو بھی اس کی ذمہ داری اٹھائے گا یہ کام اسے تھکا دے گا۔ لہٰذا اے عمر! اللہ کی اطاعت کے ذریعہ تم اس سے ڈرو اور اس سے ڈرتے ہوئے اس کی اطاعت کرو کیونکہ اللہ سے ڈرنے والا ہی ( ہر خوف سے) امن میں ہوتا ہے اور (ہر شر اور مصیبت سے) محفوظ ہوتا ہے۔
پھر اس امر خلافت کا حساب اللہ کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور اس کام کا مستحق صرف وہی ہے جو اس کا حق ادا کر سکے اور جو دوسروں کو حق کا حکم دے اور خود باطل پر عمل کرے اور نیکی کا حکم کرے اور خود برائی پر عمل کرے اس کی کوئی امید پوری نہ ہو سکے گی اور اس کے تمام نیک اعمال ضائع ہو جائیں گے ( وہ اعمال آخرت میں اس کے کام نہ آئیں گے)۔
لہٰذا گر تم پر مسلمانوں کی خلافت کی ذمہ داری ڈال دی جائے تو پھر تم اپنے ہاتھوں کو ان کے خون سے دور رکھ سکو اور اپنے پیٹ کو ان کے مال سے خالی رکھ سکو اور ان کی آبروریزی سے اپنی زبان کو بچا سکو تو ضرور ایسے کرنا اور نیکی کرنے کی طاقت صرف اللہ ہی سے ملتی ہے۔” (اخرجہ الطبرانی)
حضرت عبدالرحمن بن سابط، حضرت زید بن زبید بن حارث اور حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان سے یہ فرمایا:۔
۔”اے عمر! اللہ سے ڈرتے رہنا اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ( انسانوں کے ذمہ) دن میں کچھ ایسے عمل ہیں جن کو وہ رات کو قبول نہیں کرتے ہیں اور ایسے ہی اللہ کی طرف سے (انسانوں کے ذمہ) رات میں کچھ عمل ایسے ہیں جن کو وہ دن میں قبول نہیں کرتے۔
اور جب تک فرض ادا نہ کیا جائے اس وقت تک اللہ نفل قبول نہیں فرماتے۔ دنیا میں حق کا اتباع کرنے اور حق کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے ہی قیامت کے دن اعمال کا ترازو بھاری ہو گا۔ کل جس ترازو میں حق رکھا جائے اسے بھاری ہونا ہی چاہئے اور دنیا میں باطل کا اتباع کرنے اور باطل کو معمولی سمجھنے کی وجہ سے ہی قیامت کے دن ترازو ہلکا ہو گا اور کل جس ترازو میں باطل کو معمولی سمجھنے کی وجہ سے ہی قیامت کے دن ترازو ہلکا ہو گا اور کل جس ترازو مں ی باطل رکھا جائے اسے ہلکا ہی ہونا چاہئے
اور اللہ تعالیٰ نے جہاں جنت والوں کا ذکر کیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے سب سے اچھے اعمال کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کے برے اعمال سے درگزر فرمایا ہے:۔
میں جب بھی جنت والوں کا ذکر کرتا ہوں تو کہتا ہوں مجھے یہ ڈر ہے کہ شاید میں ان میں شامل نہ ہو سکوں اور اللہ تعالیٰ نے جہاں دوزخ والوں کو ذکر کیا ہے وہاں ان کو سب سے برے اعمال کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کے اچھے اعمال کو ان پر رد کر دیا ہے۔ یعنی ان کو قبول نہیں فرمایا ۔ میں جب بھی دوزخ والوں کا ذکر کرتا ہوں تو کہتا ہوں کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ شاید میں ان ہی کے ساتھ ہوں گا اور اللہ تعالیٰ نے رحمت کی آیت بھی ذکر فرمائی ہے اور عذاب کی آیت بھی۔ لہٰذا بندے کو رحمت کا شوق اور عذاب کا ڈر ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے غلط امیدیں نہ باندھے ( کہ عمل تو اچھے نہ کرے اور امید جنت کی رکھے) اور اس کی رحمت سے ناامید بھی نہ ہو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالے۔
اگر تم نے میری یہ وصیت یاد رکھی ( اور اس پر اچھی طرح عمل کیا ) تو کوئی غائب چیز تمہیں موت سے زیادہ محبوب نہ ہو گی اور تمہیں موت آ کر رہے گی اور اگر تم نے میری وصیت ضائع کر دی ( اور اس پر عمل نہ کیا) تو کوئی غائب چیز تمہیں موت سے زیادہ بری نہیں لگے گی اور وہ موت تمہیں پکڑ کر رہے گی تم اس سے بچ نہیں سکتے۔” (عند ابن المبارک وابن ابی شیبۃ)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 500 – 501

Written by Huzaifa Ishaq

27 October, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments