حضرت حمزہ اور وحشی غزوہ احد میں

جدید سیرت النبی ﷺ اعلیٰ ایڈیشن 3 جلد

حضرت حمزہ اور وحشی غزوہ احد میں
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور شہادت

شیرانہ حملے

سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شیرانہ حملہ سے کفار سخت پریشان تھے۔ جس پر تلوار اٹھاتے اسی کی لاش زمین پر نظر آتی۔

وحشی بن حرب

وحشی بن حرب جو جبیر بن مطعم کا حبشی غلام تھا۔
جنگ بدرمیں جبیر کا چچا طعیمہ بن عدی حضرت حمزہ کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا۔
جبیر کو اس کا بہت صدمہ تھا۔ جبیر نے وحشی سے یہ کہا کہ اگر میرے چچا کے بدلہ میں حمزہ کو قتل کردے تو تو آزاد ہے۔ جب قریش جنگ احد کے لئے روانہ ہوئے تو وحشی بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔

سباع کا قتل

جب احد پرفریقین کی صفیں قتال کے لئے مرتب ہو گئیں اور لڑائی شروع ہوئی تو سباع بن عبدالعزی ھل من مبارز (ہے میرا کوئی مقابل) پکارتا ہوا میدان میں آیا۔
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے اے سباع۔ اے عورتوں کا ختنہ کرنے والی عورت کے بچے تو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے یہ کہہ کر اس پر تلوار کا ایک وار کیا ایک ہی وار میں اس کو فنا اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔

وحشی کا نیزہ اور شہادت

وحشی حضرت حمزہ کی تاک میں ایک پتھر کے نیچے چھپا بیٹھا تھا۔ جب حضرت حمزہ ادھر سے گزرے تو وحشی نے پیچھے سے ناف پر نیزہ مارا جو پار ہوگیا۔ حضرت حمزہ چند قدم چلے مگر لڑکھڑا کر گر پڑے اور جام شہادت نوش فرمایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
مسند ابی داؤد طیالسی میں ہے وحشی کہتے ہیں کہ جب مکہ آیا تو آزاد ہو گیا اور قریش کے ساتھ فقط حضرت حمزہ کے قتل کے ارادہ سے آیا تھا قتل و قتال میرا مقصد نہ تھا۔
حضرت حمزہ کو قتل کر کے لشکر سے علیحدہ جا کر بیٹھ گیا اس لئے کہ میرا اور کوئی مقصد نہ تھا صرف آزاد ہونے کی خاطر حضرت حمزہ کو قتل کیا۔

وحشی کا مسلمان ہونا

فتح مکہ کے بعد وفد طائف کے ساتھ وحشی بارگاہ رسالت میں مدینہ منورہ مشرف باسلام ہونے کی غرض سے حاضر ہوئے لوگوں نے ان کو دیکھ کر عرض کیا یا رسول اللہ یہ وحشی ہے یعنی آپ کے عم محترم کا قاتل۔ آپ نے فرمایا۔
اس کو چھوڑ دو۔ البتہ ایک شخص کا مسلمان ہونا میرے نزدیک ہزار کافروں کے قتل سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔ بعد ازاں آپ نے وحشی سے حضرت حمزہ کے قتل کا واقعہ دریافت کیا۔
وحشی نے نہایت ندامت کے ساتھ محض تعمیل ارشاد کی غرض سے واقعہ عرض کیا۔ آپ نے وحشی کا اسلام قبول کیا اور یہ فرمایا کہ اگر ہو سکے تو میرے سامنے نہ آیا کرو اس لئے کہ تم کو دیکھ کر چچا کا صدمہ تازہ ہو جاتا ہے۔
وحشی رضی اللہ عنہ کو چونکہ آپ کو ایذاء پہنچانا مقصود نہ تھا اس لئے جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو پس پشت بیٹھتے۔

نعمت اسلام پر شکر

وحشی راوی ہیں کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا تو نے ہی حمزہ کو قتل کیا ہے۔ میں نے عرض کیا۔ہاں اور شکر اس خدا کا جس نے حضرت حمزہؓ کو میرے ہاتھ شہادت کی کرامت اور عزت بخشی اور مجھ کو اس کے ہاتھ سے ذلیل نہیں کیا۔
کیونکہ اگر وحشی اس وقت حضرت حمزہ کے ہاتھ سے مارے جاتے تو بحالت کفر مارے جاتے۔ جس سے بڑھ کر کوئی اہانت اور ذلت نہیں۔
بعد ازاں آپ نے فرمایا اے وحشی جا اور خدا کی راہ میں قتال کر جیسا کہ تو خدا کے راستہ سے روکنے کے لئے قتال کرتا تھا۔

حضرت وحشی کا مسیلمہ کو قتل کرنا

اب حضرت وحشی اس فکر میں رہے کہ اس کا کوئی کفارہ کروں چنانچہ اس کے کفارہ میں مسیلمہ کذاب کو اسی نیزہ سے مار کر واصل جہنم کیا جس نے خاتم النبیین صلوات اللہ و سلامہ علیہ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا۔
اور جس طرح حضرت حمزہ کو ناف پر نیزہ مار کر شہید کیا اس طرح مسیلمہ کذاب کو بھی ناف ہی پر نیزہ مار کر قتل کیا۔ اس طرح ایک خیرالناس کے قتل کی ایک شرالناس (بدترین خلائق) کے قتل سے مکافات کی۔
صحیح بخاری میں ہے کہ مسیلمہ کذاب کے قتل میں وحشی کے ساتھ ایک انصاری بھی شریک تھا اور اسحاق بن راہویہ اور حاکم کہتے ہیں عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ تھے اور بعض سہل اور بعض ابو دجانہ اور بعض زید بن الخطاب کا نام بتلاتے ہیں۔

کتاب کا نام: جدید سیرت النبی اعلیٰ

Written by Huzaifa Ishaq

8 November, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments