ابو رافع سلام بن ابوالحقیق گستاخ کا قتل

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

ابو رافع سلام بن ابوالحقیق گستاخ کا قتل

حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کے دین کے پھیلنے اور ترقی پانے) کے لئے جن مفید صورتوں اور حالات کو وجود عطا فرمایا ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ انصار کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت میں اور ان کے کام کرنے میں ایک دوسرے سے ہر وقت ایسا مقابلہ لگا رہتا تھا جیسے کہ دو پہلوانوں میں ہواکرتا ہے ۔
قبیلہ اوس والے جب کوئی ایسا کام کر لیتے جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم (کے دین کو او ر حضور صلی اللہ علیہ وسلم والی محنت)کو فائدہ ہوتا تو قبیلہ خزرج والے کہتے تم یہ کام کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں فضیلت میں ہم سے آگے نہیں نکل سکتے ہو اور جب تک ویسا ہی کام نہ کر لیتے وہ حضرات چین سے نہ بیٹھتے اور جب قبیلہ خزرج والے کوئی ایسا کام کر لیتے تو قبیلہ اوس والے یہی بات کہتے ۔
چنانچہ جب قبیلہ اوس (کے ایک صحابی حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ)نے کعب بن اشرف کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھنے کی وجہ سے قتل کر دیا تو قبیلہ خزرج نے کہا اللہ کی قسم !تم یہ کارنامہ کر کے فضیلت میں کبھی بھی ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہو اور پھر انہوں نے سوچا کہ کونسا آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھنے میں کعب بن اشرف جیسا ہے ۔
وہ آخر اس نتیجہ پر پہنچے کہ خیبر کا ابن ابی الحقیق دشمنی میں کعب جیسا ہے۔ چنانچہ ان حضرات نے اسے قتل کرنے کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی تو قبیلہ خزرج میں سے بنوسلمہ کے پانچ آدمی حضرت عبداللہ بن عتیک، حضرت مسعود بن سنان ، حضرت عبداللہ بن انیس، حضرت ابوقتادہ، حضرت حارث بن ربعی اور حضرت خزاعی بن اسود رضی اللہ عنہم (خیبر جانے کے لئے)تیار ہوئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہما کو ان کا امیر بنایا اور انہیں کسی بچے یا عورت کو قتل کرنے سے منع فرمایا چنانچہ وہ حضرات (مدینہ سے) روانہ ہوئے اور خیبر پہنچ کر وہ حضرات رات کے وقت ابن ابی الحقیق کے گھر گئے اور گھر کے ہر کمرے کو باہر سے بند کر دیا تاکہ کسی کمرے میں سے اندر والے باہر نہ آسکیں۔
ابن ابی الحقیق اپنے بالاخانہ میں تھا جہاں تک جانے کے لئے کھجور سے بنی ہوئی ایک سیڑھی تھی ۔ چنانچہ یہ حضرات اس سیڑھی سے چڑھ کر اس کے دروازے پر پہنچ گئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی تو اس کی بیوی نکل کر باہر آئی اور کہنے لگی تم لوگ کون ہو؟ ان حضرات نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں اور غلہ کی تلاش میں آئے ہیں ۔
اس نے کہا ابورافع یہ ہے جس سے تم ملنا چاہتے ہو اندر آجاؤ۔ فرماتے ہیں کہ جب ہم اندر چلے گئے تو ہم نے اندر سے کمرہ بند کر لیا تاکہ اس تک پہنچنے میں کوئی حائل ہی نہ ہو سکے (یہ دیکھ کر) اس کی بیوی شور مچا کر ہماری خبر کرنے لگی۔ ابورافع اپنے بستر پر تھا۔ ہم تلواریں لے کر اس پر تیزی سے جھپٹے اللہ کی قسم !رات کے اندھیرے میں ہمیں اس کا پتہ صرف اس کی سفیدی ہی سے چلا۔ ایسا سفید تھا جیسے کہ مصری سفید چادر پڑی ہو ۔
جب اس کی بیوی ہمارے بارے میں شور مچا کر بتانے لگی تو ہمارے ایک ساتھی نے (قتل کرنے کے لئے) اس پر تلوار اٹھا لی۔ لیکن پھر اسے یاد آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (بچے اور عورت کو قتل کرنے سے) منع فرمایا تھا اس وجہ سے اس نے تلوار روک لی اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم رات ہی کو اس سے نمٹ جاتے ۔
جب ہم لوگوں نے تلواروں سے اس پر حملہ کیا (لیکن اس کا کام تمام نہ ہوا) تو حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر تلوار پر اپنا سارا وزن ڈال دیا جس سے تلوار پار ہو گئی ابورافع بس بس ہی کہتا رہا۔
اس کے بعد ہم لوگ وہاں سے باہر آئے۔ حضرت عبدللہ بن عتیک رضی اللہ عنہما کی نگاہ کمزور تھی وہ سیڑھی سے گر گئے جس سے ان کے ہاتھ میں بری طرح موچ آ گئی ۔
ہم انہیں وہاں سے اٹھا کر یہود کے چشموں سے بہنے والی ایک نہر کے پاس لائے اور اس میں داخل ہو گئے ادھر وہ لوگ آگ جلا کر ہر طرف ہماری تلاش میں دوڑ پڑے آخر نا امید ہو کر اس کے پاس واپس گئے۔ اور اس کو سب نے گھیر لیا اور ان سب کے بیچ میں اس کی جان نکل رہی تھی۔
ہم نے آپس میں کہا ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ کا دشمن مر گیا ہے؟ ہم میں سے ایک ساتھی نے کہا کہ میں جا کر دیکھ آتا ہوں چنانچہ وہ گئے اور عام لوگوں میں شامل ہو گئے۔
وہ فرماتے ہیں کہ وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ ابورافع کی بیوی اور بہت سے یہودی اس کے اردگرد جمع ہیں ۔ اس کی بیوی کے ہاتھ میں چراغ ہے اور وہ اس کے چہرے کو دیکھ رہی ہے۔
اور وہ ان کو بتا رہی ہے اور کہہ رہی ہے اللہ کی قسم! آواز تو میں نے ابن عتیک رضی اللہ عنہما کی سنی تھی لیکن پھر میں نے اپنے آپ کو جھٹلایا اور میں نے ابن عتیک رضی اللہ عنہما یہاں اس علاقہ میں کہاں؟
پھر اس نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر کہا یہود کے معبود کی قسم! یہ تو مر چکا ہے۔ میں نے اس سے زیادہ لذیذ بات نہیں سنی ۔
فرماتے ہیں کہ ہمارا ساتھی ہمارے پاس واپس آیا اور اس نے ہمیں (اس کی موت) کی خبر دی۔
ہم اپنے ساتھی کو اٹھا کر چلے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ کے دشمن کو قتل کر دینے کی خبر دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہمارااختلاف ہو گیا کہ کس نے قتل کیا ہے؟
ہر ایک کہنے لگا کہ اس نے قتل کیا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی تلواریں لاؤ۔ ہم اپنی تلواریں لائے ۔ آپ نے انہیں دیکھ کر حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما کی تلوار کے بارے میں کہا کہ اس نے قتل کیا ہے۔
کیونکہ میں اس میں کھانے کا اثر دیکھ رہا ہوں (یہ تلوار اس کے معدے میں سے گذری ہے)۔اخرجہ ابن اسحاق کذ افی البدایۃ

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 295 – 296

Written by Huzaifa Ishaq

24 October, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments