گفتگو اور کلام کی سنتیں و آداب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ بعض وقت زبان سے ایسی بات نکالتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جاتے ہیں لیکن وہ بندہ اس حیثیت سے واقف نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ اس بات کے بدلہ میں اس کے درجات کو بلند کردیتا ہے اور بعض اوقات بندہ ایسی بات کہتا ہے جس سے اللہ رب العزت ناراض ہوجاتے ہیں اور وہ اس سے واقف نہیں ہوتا اور وہ بات اس کو جہنم میں لے جاتی ہے۔ (بخاری)
آدمی کو چاہیے کہ زبان کو بے لگام نہ چھوڑ دے بلکہ اس کی حفاظت کرے کیونکہ بعض اوقات زبان سے ایسے الفاظ بھی نکل سکتے ہیں جو چند لمحات کے اندر دوست کو دشمن اور اپنے کو بیگانہ بنا دیتے ہیں۔
یہی زبان اپنے مالک کو لوگوں کی نظروں سے گرادیتی ہے۔ اس زبان کی تخلیق بھی عجیب و غریب ہے، غور کیا جائے تو یہ اللہ رب العزت کی ایک عظیم نعمت ہے، اگر اسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ بلندئ درجات کا سبب بنتی ہے ورنہ خسارے میں ڈال دیتی ہے۔
۔1۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔ (بخاری)
۔2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص زبان اور شرمگاہ کی (حفاظت) کی ذمہ داری دے گا میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری دوں گا۔ (بخاری)
۔3۔ ایک حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے بچو، خواہ آدھی کھجور ہی (صدقہ کرکے) ہوسکے اور اگر کسی کو یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کے ذریعہ (جہنم سے بچے)
۔4۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیز تیز اور مسلسل بات نہیں کرتے تھے جس طرح تم (میں سے بعض لوگ) مسلسل بولتے چلے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے کہ اگر کوئی گننا چاہتا تو گن سکتا تھا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
۔5۔ بات کا نرمی سے جواب دینا چاہیے ۔ (نشرالطیب)
۔6۔ اگر کسی مسئلہ کے بیان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مصروف گفتگو ہوتے اور قبل اس کے کہ سلسلہ کلام ختم ہو کوئی شخص دوسرا سوال پیش کردیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سلسلہ تقریر کو بدستور جاری رکھتے ، ایسے معلوم ہوتا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ہی نہیں، جب گفتگو ختم کرلیتے تو سائل سے اس کا سوال معلوم کرتے اور اس کا جواب دیتے۔ (نشرالطیب)
۔7۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مجمع میں ہوتے تو بوقت گفتگو کبھی اِدھر رُخ کرکے تخاطب فرماتے اور کبھی اُدھر۔ گویا حلقہ میں سے ہر شخص بوقت گفتگو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کو دیکھ لیتا۔ (نشرالطیب)
۔8۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلام فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام جلیس (ساتھ بیٹھنے والے) اس طرح سر جھکا کر بیٹھ جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے آکر بیٹھ گئے ہوں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساکت ہوتے تب وہ بولتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی بات پر نزع نہ کرتے تھے۔
۔9۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو شخص بولتا اس کے فارغ ہوتے تک سب خاموش رہتے۔ اہل مجلس میں سے ہر شخص کی بات رغبت کے ساتھ سنی جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملنے والوں کے بارے میں استفسار فرماتے اور لوگوں میں جو واقعات ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پوچھتے رہتے تاکہ مظلوم کی نصرت اور مفسدوں کا انسداد ہوسکے۔ (اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)
۔10۔ کسی جاہل یا مخالف سے لغو و بیہودہ بات سنے تو اس کا جواب دینے کے بجائے السلام علیکم کہہ کر اپنی راہ لے لینی چاہیے۔
۔11۔ چغل خور جنت میں نہ جائیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
۔12۔ سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور جہنم میں لے جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
۔13۔ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو (حفاظت کرنے والے) فرشتے اس کی جھوٹ کی بُو سے میلوں دور چلے جاتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)
۔14۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم قیامت کے دن بد ترین لوگوں میں سے ان کو پاؤ گے جو دو منہ رکھنے والے ہوں گے ، ان کے پاس جائیں تو ان کی سی بات کہیں گے گے تو ان کی سی بات کہیں گے اور ان کے پاس جائیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
ایک روایت میں ہے کہ اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔ (مشکوٰۃ بحوالہ دارمی)
یہ دونوں صورتیں الگ الگ بھی ہوسکتی ہیں اور ایک ساتھ بھی۔ واللہ اعلم بالصواب
۔15۔ خوش طبعی کرنا اور اس میں سچ بولنا سنت ہے۔ (نشرالطیب)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص گفتگو کرے اور جھوٹ بولے اس لیے کہ لوگوں کو ہنسائے افسوس ہے اس پر، افسوس ہے اس پر۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
۔16۔ جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ (مشکوٰۃ)
۔17۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو مبالغہ کے ساتھ تعریفیں کرتے ہوں (یعنی جھوٹی تعریف کرتے ہوں) تو ان کے منہ میں راکھ ڈال دو۔ (یعنی ان سے منہ پھیرلو)۔ (مشکوٰۃ، کتاب الادب)
۔18۔ کوئی شخص کسی پر نہ تو فسق کی تہمت لگائے اور نہ کفر کی، اس لیے کہ اگر وہ شخص ایسا نہیں ہے یعنی وہ فاسق یا کافر نہیں ہے تو یہ کلمہ کہنے والے پر لوٹ پڑتا ہے۔ (مسلم)
۔19۔ مسلمان کو برا کہنا فسق ہے اور مسلمان کو مارنا کفر ہے۔ (بخاری)
۔20۔ اگر دو شخص ایک دوسرے کو برا کہیں تو برا کہنے کا گناہ اس پر ہوگا جس نے پہل کی وہ ظالم ہے اور دوسرا مظلوم جب تک وہ حد سے آگے نہ بڑھے۔ (بخاری)
۔21۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن بدترین آدمی وہ ہوں گے جن کو لوگ ان کی برائی کی وجہ سے ڈر کر چھوڑ دیں۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جن کی فحش گوئی سے ڈر کر لوگ ان سے دور دور رہیں۔ (مشکوٰۃ)
۔22۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعن کرنے والا ، نہ فحش بکنے والا اور نہ ہی زبان دراز ہوتا ہے۔ (مشکوٰۃ)
۔23۔ اگر کسی عورت کو جس کا لڑکا فوت ہوگیا ہو یا گم ہوگیا ہو کوئی شخص اسے تسلی اور دلاسہ دے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں خلعت فاخرہ پہنائیں گے۔ (یعنی کسی بھی غمزدہ مسلمان بھائی کو تسلی دینا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے)۔ (مشکوٰۃ، کتاب الادب)
کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبتر: 297 تا 300
مسنون زندگی قدم بہ قدم
مسنون زندگی قدم بہ قدم
یہ کتاب ولادت سے وفات تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا مبارک مجموعہ ہے بلکہ یہ سنتوں کا اک نصاب اور مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے ۔
0 Comments