نکاح کے متعلق ہدایات اور سنتیں

مسنون زندگی قدم بہ قدم

نکاح کے متعلق ہدایات اور سنتیں

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو شخص مجامعت کے لوازمات (یعنی بیوی بچوں کا نفقہ اور مہر ادا کرنے) کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نکاح کرے کیونکہ نکاح کرنا نظر کو بہت چھپاتا ہے اور شرمگاہ کو بہت محفوظ رکھتا ہے اور جو شخص مجامعت کے لوازمات کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ یہ اس کے لیے خواہشاتِ نفسانی میں کمی کا باعث ہوگا۔ (بخاری)

۔1۔ فرض:…۔ نکاح کرنا اسی صورت میں فرض ہو جاتا ہے جب کہ جنسی ہیجان اس درجہ غالب ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہو جانے کا یقین ہو اور بیوی کے مہر اور نفقہ پر قدرت حاصل ہو اور بیوی کے ساتھ ظلم و زیادتی کا خوف نہ ہو۔(مظاہرحق)

۔2۔ واجب:…۔ نکاح کرنا اس صورت میں واجب ہوتا ہے جب کہ جنسی ہیجان کا غلبہ ہو مگر اس درجہ تک نہ ہو کہ زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہو۔ نیز مہر و نفقہ کی ادائیگی کی قدرت رکھتا ہو اور بیوی پر ظلم کرنے کا خوف نہ ہو۔ اگر کسی شخص پر جنسی ہیجان کا غلبہ تو ہو مگر وہ مہر اور بیوی کے اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا انتہائی غریب آدمی ہے تو ایسی صورت میں جب تک صاحب حیثیت نہ ہو اور نکاح نہ کرے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔
ایسے شخص کے لیے حدیث بالا میں ارشاد ہے کہ وہ کثرت سے روزے رکھے کیونکہ اس سے شہوت کو سکون ہو جاتا ہے اور اگر مہر و نفقہ وغیرہ کی طاقت رکھنے والا شخص جنسی ہیجان کی صورت میں نکاح نہ کرے تو وہ گناہ گار ہوگا۔ (مظاہر حق)

۔3۔ سنت مؤکدہ:…۔ اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ یعنی جنسی ہیجان کا غلبہ تو نہ ہو لیکن بیوی کے ساتھ مباشرت و مجامعت کی طاقت رکھتا ہو اور مہر و نفقہ کی ادائیگی کی طاقت رکھتا ہو۔ لہٰذا اعتدال کی صورت میں نکاح نہ کرنے والا شخص گناہ گار ہوتا ہے جب کہ زنا سے بچنے اور افزائش نسل کی نیت کے ساتھ نکاح کرنے والا اجر و ثواب سے نوازا جاتا ہے۔ (مظاہر حق)

۔4۔ مکروہ:…۔ نکاح کرنا اس صورت میں مکروہ ہے کہ بیوی پر ظلم و زیادتی کا خوف ہو۔

۔5۔ حرام:…۔ نکاح کرنا اس صورت میں حرام ہے جب کسی شخص کو بیوی پر ظلم و زیادتی کرنے کا یقین کامل ہو کہ میں اپنی بدمزاجی کی سختی و تندہی کی وجہ سے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک قطعاً نہیں کرسکتا۔

۔6۔ باتفاق آئمہ ثابت ہے کہ نکاح کا مسنون اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ اپنا نکاح کرنے کے لیے کوئی بھی مرد یا عورت بلاواسطہ خود اقدام اُٹھانے کے بجائے اپنے اولیاء کے توسط سے یہ کام انجام دے، اس میں دین و دُنیا کے مصالح اور فوائد ہیں، خصوصاً لڑکیوں کے معاملہ میں۔ لڑکیاں اپنے نکاح کا معاملہ خود طے کریں تو یہ ایک قسم کی بے حیائی بھی ہے اور اس میں فواحش کے راستے کھل جانے کا خطرہ بھی ہے۔اس لیے بعض روایات حدیث میں عورتوں کو خود اپنا نکاح بلاواسطہ ولی کے کرنے سے روکا بھی گیا ہے۔ (معارف القرآن)

۔7۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا کہ تم نکاح کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو تو اللہ تعالیٰ نے جو غناء عطا فرمانے کا حکم کیا ہے وہ پورا فرمائیں گے۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ آیت پڑھی:۔
۔”اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ”۔
تفسیر مظہری میں ہے، یہ یاد رہے کہ نکاح کرنے والے کو غنی اور مال عطا فرمانے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی حال میں ہے جب کہ نکاح کرنے والے کی نیت اپنی عفت کی حفاظت اور سنت پر عمل ہو اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد ہو۔ (سورۃ النور:32)

۔8۔ نکاح کا پیغام دینے سے پہلے ایک دوسرے کے حالات اور عادات و اطوار کی خوب اچھی طرح جستجو کرلی جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی ایسی چیز معلوم ہو جو طبیعت و مزاج کے خلاف ہونے کی وجہ سے زوجین کے درمیان ناچاقی و کشیدگی کا باعث بن جائے۔ (مظاہر حق)

۔9۔ یہ مستحب ہے کہ عمر، عزت، حسب اور مال میں بیوی خاوند سے کم ہو اور اخلاق، عادات، خوش سلیقگی، آداب، حسن و جمال اور تقویٰ میں خاوند سے زیادہ ہو۔ (مظاہر حق)

۔10۔ نکاح کا اعلان کیا جائے اور نکاح کی مجلس اعلانیہ طور پر منعقد کی جائے جس میں دونوں طرف سے اعزہ و احباب نیز بعض علماء و صلحاء بھی شریک کیے جائیں۔ (مظاہر حق)

۔11۔ نکاح پڑھانے والا نیک بخت اور صالح ہو اور گواہ عادل و پرہیزگار ہوں۔ (مظاہر حق)

۔12۔ اپنی منسوبہ کو نکاح سے پہلے دیکھ لینا مستحب ہے۔ اس بارہ میں فقہی مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہتر اور مناسب یہی ہے کہ مرد اپنی منسوبہ کو دیکھنے کے بجائے کسی تجربہ کار اور معتمد علیہ عورت کو بھیج دے تاکہ وہ اس کی منسوبہ کو دیکھ کر مطلوبہ معلومات فراہم کردے۔ (مسند احمد)

۔13۔ شوال کے مہینہ میں نکاح کرنا مستحب ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال کے مہینہ میں نکاح کیا اور پھر شوال ہی کے مہینہ میں مجھے رُخصت کراکے اپنے گھر لائے۔
اب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں کون سی زوجہ مطہرہ مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھیں۔ (صحیح مسلم)

۔14۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ‘‘أیم’’ (یعنی بیوہ بالغہ) کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس کا حکم حاصل نہ کرلیا جائے۔ اسی طرح کنواری عورت (یعنی کنواری بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے۔

۔15۔ نکاح ایجاب و قبول کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے اور اس کے لیے یہ شرط ضروری ہے کہ ایجاب و قبول دونوں ماضی کےصیغہ کے ساتھ ہونے چاہئیں جیسے عورت کا ولی مرد سے کہے کہ میں نے فلاں عورت جس کا نام یہ ہے کا نکاح تم سے کیا اور اس کے جواب میں مرد کہے کہ میں نے قبول کیا۔
البتہ گواہوں کے سامنے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ‘‘بیوی خاوند’’ ہیں نکاح نہیں ہوتا۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل)
لڑکی کا نکاح فارم پر صرف دستخط کردینا بھی کافی ہے اور لڑکا گواہوں کی موجودگی میں کہے: ‘‘قبول ہے’’ تو یہ نکاح صحیح ہے۔ (مسلم، کتاب النکاح)

۔16۔ جو شخص (قاضی) عقد کرانے بیٹھے تو اوّل خطبہ پڑھے کیونکہ عقد کرانے سے پہلے خطبہ پڑھنا سنت ہے۔ پھر اس کے بعد ایجاب و قبول کرانے میں ان باتوں کا جو ضروری ہیں خیال رکھے جن کا بیان اوپر ہوچکا۔

۔17۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مرد نکاح کا پیغام اپنے کسی مسلمان بھائی کے پیغام پر نہ بھیجے تاآنکہ وہ اس سے نکاح کرلے یا اس کو ترک کردے۔ (ترمذی، کتاب النکاح)

وضاحت:…۔ یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کہ ان دونوں کی شادی کا معاملہ تقریباً طے ہوچکا ہو اور صرف نکاح ہونا باقی رہ گیا ہو اور اگر کوئی شخص اس ممانعت کے باوجود کسی کی منسوبہ کے پاس نکاح کا پیغام بھیج دے اور پہلے شخص کی اجازت کے بغیر نکاح بھی کرلے تو یہ نکاح تو صحیح ہو جائے گا لیکن دوسرا شخص گناہ گار ہوگا۔ ہاں اگر پہلے شخص کی بات نہیں بنی، معاملہ ختم ہوچکا یا وہ کہہ دے کہ اس عورت سے میں نکاح نہیں کروں گا تم اپنا پیغام بھیج دو، اس صورت میں دوسرے کا نکاح کے لیے پیغام بھیجنا جائز ہوگا۔

۔18۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے پاس کوئی شخص نکاح کا پیغام بھیجے اور تم اس شخص کی دینداری و اخلاق سے مطمئن و خوش ہو تو اس سے نکاح کردو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ اور بڑا فساد ہوگا۔ (ترمذی، کتاب النکاح)
 فائدہ:…۔ یعنی ایسے شخص کے پیغام کو نظرانداز کرکے کسی صاحب ثروت شخص کے پیغام کے انتظار میں رہو گے تو اس کے نتیجہ میں بڑی برائیاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید کو ذہن میں رکھیں، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ و فساد ہوگا۔

۔19۔ یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ نکاح جیسا پاکیزہ معاملہ بھی غیرمسلموں کی ناپاک رسموں اور غلط رواجوں سے محفوظ نہیں رہا۔
مثلاً باجوں اور مزامیر کا استعمال کرنا، مووی بنانا، ناچ گانے اور قوالی کا انتظام کرنا، سہرا باندھنا، گھر کی اسراف کی حد تک آرائش کرنا، دولہا کا مزارات پر جانا اور کچھ نقد رقم چڑھا کر پھر بارات میں شامل ہونا، آتش بازی کے ذریعہ مال ضائع کرنا، بارات میں مردوں کے سامنے عورتوں کا کھلے منہ آنا، دولہا کو ریشمی مسند پر بٹھانا، دولہا و دلہن کے درمیان محبت کے لیے کوئی ٹوٹکا وغیرہ کرنا، دولہا کا حریر یا زعفرانی رنگ کا یا ریشمی کپڑا پہننا، دولہا کا دلہن کے گرد سات چکر لگانا، اجنبی عورتوں کا دولہا کے پاس آنا اور اسے ہاتھ لگانا یا اس کے ناک کان پکڑنا یا بے حیائی کی باتیں کرنا، دولہا کا انگوٹھا دودھ کے ذریعہ عورت سے دھلوانا، عورتوں کا دولہا کو شکر کھلانا اور دودھ پلانا، مصری کی ڈلی دلہن کے بدن پر رکھ کر دولہا سے کہنا کہ اسے منہ سے اُٹھا لو اور خلوت میں جب دولہا اور دُلہن جمع ہوں تو عورتوں کا انہیں گھیرے رہنا۔
یہ سب چیزیں بدعت اور حرام ہیں جن کا شریعت و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان سے اجتناب ضروری ہے۔ (مظاہر حق)

۔20۔ ٹیلی فون پر نکاح:…۔ مجبوراً ٹیلی فون پر نکاح کرنا پڑ جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ٹیلی فون پر یا خط کے ذریعہ لڑکا (یا لڑکی جو بھی مجلس سے غائب ہے) اپنی طرف سے کسی کو وکیل بنا دے اور وہ وکیل اس کی طرف سے ایجاب و قبول کرلے۔
تب تو صحیح ہے، جاننا چاہیے کہ الگ الگ شہروں میں اور مختلف گواہوں سے جو یکجا نہ ہوں ایجاب و قبول نہیں ہوتا کیونکہ نکاح میں ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں ہونا چاہیے اور مزید یہ کہ دولہا اور دُلہن دونوں کے گواہ جو غائب ہو اس کا وکیل اور دوسرا فریق سب کے سب ایک ہی جگہ جمع ہونے چاہئیں۔

۔21۔ نکاح کے لیے دونوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ہمارے زمانہ کے یہود و نصاریٰ برائے نام اہل کتاب ہیں۔ ان میں بکثرت وہ ہیں جو نہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہیں نہ مذہب کے، نہ اللہ رب العزت کے، ان پر اہل کتاب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ان کے ذبیحہ اور عورتوں کا حکم اہل کتاب کا نہ ہوگا۔

۔22۔ ایک مرد کے لیے متعدد بیویاں رکھنا اسلام سے پہلے بھی تقریباً دُنیا کے تمام مذاہب میں جائز سمجھا جاتا تھا اور اس کی فطری ضرورتوں سے آج بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
فرمانِ الٰہی ہے: “جو عورتیں تمہیں پسند ہوں (یعنی جو عورتیں تمہیں طبعی طور پر پسند ہوں اور تمہارے لیے شرعاً حلال بھی ہوں) ان سے نکاح کرسکتے ہو۔ دو دو، تین تین، چار چار اور اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی پر بس کرو یا جو کنیز شرعی اُصول کے مطابق تمہاری ملک ہو وہی سہی”۔
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے نکاح میں دو عورتیں ہوں اور وہ ان کے حقوق میں برابری نہ کرسکے تو وہ قیامت کے دن اس طرح اُٹھایا جائے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)۔
البتہ یہ مساوات ان اُمور میں ضروری نہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں مثلاً قلب کا میلان کسی کی طرف زیادہ ہو جائے تو اس غیراختیاری معاملہ میں اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ بشرطیکہ اس میلان کا اثر اختیاری معاملات پر نہ پڑے۔

مسئلہ:…۔ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی رضا مندی شرعاً شرط نہیں۔ لیکن پہلی بیوی کے برابر کے حقوق ادا کرنا شوہر کے لیے واجب ہے۔ اگر کوئی شخص پہلی بیوی سے قطع تعلق رکھے گا تو شرعاً مجرم ہوگا۔

۔23۔ میاں بیوی کے درمیان کشاکشی کا اندیشہ ہو تو حق تعالیٰ شانہ نے حکام اور دونوں خاندان کے لوگوں کو حکم فرمایا ہے کہ ان کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : “اگر تم کو ان دونوں کے درمیان کشاکشی کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو” مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو، عورت کے خاندان سے بھیجو۔
اگر دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں اتفاق پیدا فرمائیں گے۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں۔ (سورۃ النساء:35)

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 366 تا 371

Written by Huzaifa Ishaq

15 October, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments