نفل کام کی تلافی (ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔
ارشاد فرمایا کہ ہمارے حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحب عارفی قدس اللہ سرہ نے اس حدیث کی بنیاد پر جس میںکھاناشروع کرنے کی دعا بھول جانے کا ذکر ہے، فرمایا کہ جب بھی آدمی کوئی نفلی عبادت اپنے وقت پر ادا کرنا بھول گیایا کسی عذر کی وجہ سے وہ نفلی عبادت نہ کر سکا تو یہ نہ سمجھے کہ بس اب اس نفلی عبادت کا وقت تو چلا گیا، اب چھٹی ہو گئی بلکہ بعد میں جب موقع مل جائے، اس نفلی عبادت کو کرلے ۔چنانچہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت والا قدس اللہ سرہ کے ساتھ ایک اجتماع میں شرکت کے لئے جارہے تھے، مغرب کے وقت وہاں پہنچنا تھا، مگر ہمیں نکلتے ہوئے دیر ہو گئی جس کی وجہ سے مغرب کی نماز راستے میں ہی ایک مسجد میں پڑھی، چونکہ خیال یہ تھا کہ وہاں پر لوگ منتظر ہوں گے۔ اس لئے حضرت والا نے صرف تین فرض اور دو سنتیں پڑھیں اور ہم نے بھی تین فرض اور دو سنتیں پڑھ لیں اور وہاں سے جلدی روانہ ہو گئے، تاکہ جو لوگ انتظار کر رہے ہیں، ان کو انتظار زیادہ نہ کرنا پڑے۔چنانچہ تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچ گئے، اجتماع ہوا۔ پھر عشاء کی نماز بھی وہیں پڑھی اور رات کے دس بجے تک اجتماع رہا۔ پھر جب حضرت والا وہاں سے رخصت ہونے لگے تو ہم لوگوں کو بلا کر پوچھا کہ بھائی، آج مغرب کے بعد کی اوبین کہاں گئی ؟ ہم نے کہا کہ حضرت، وہ تو آج رہ گئی چونکہ راستے میں جلدی تھی اس لئے نہیں پڑھ سکے۔حضرت والا نے فرمایا کہ رہ گئیں، اور بغیر کسی معاوضے کے رہ گئیں ! ہم نے کہا کہ حضرت چونکہ لوگ انتظار میں تھے، جلدی پہنچنا تھا، اس عذر کی وجہ سے اوابین کی نماز رہ گئی۔ حضرت نے فرمایا کہ الحمد للہ ، جب میں نے عشاء کی نماز پڑھی تو عشاء کی نماز کے ساتھ جو نوافل پڑھا کرتا ہوں، ان کے علاوہ مزید چھ رکعتیں پڑھ لیں ۔اب اگر چہ وہ نوافل اوابین نہ ہوں، اس لئے کہ اوابین کا وقت تو مغرب کے بعد ہے لیکن یہ سوچا کہ وہ چھ رکعتیں جو چھوٹ گئی تھیں، کسی طرح ان کی تلافی کر لی جائے ۔ الحمد للہ میں نے تواب چھ رکعتیں
پڑھ کر اوبین کی تلافی کر لی ہے، اب تم جانوتمہارا کام ۔ پھر فرمایا نہ کہ تم مولوی ہو، یہ کہوگے کہ نوافل کی قضا نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ فرائض اور واجبات کی تو قضا ہوتی ہے، سنت اور نفل کی قضا نہیں ہوتی ، آپ نے اوابین کی قضا کیسے کر لی ؟ تو بھائی تم نے وہ حدیث پڑھی ہے جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر تم کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول جاؤ، تو جب درمیان میں یاد آجائے تو اس وقت پڑھ لو، اور اگر آخر میں یاد آجائے، اس وقت پڑھ لو۔ اب دعا پڑھنا کوئی فرض و واجب تو تھا نہیں۔ پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ بعد میں پڑھ لو۔ بات دراصل یہ ہے کہ ایک نفل اور مستحب کام جو ایک نیکی کا کام تھااور جس کے ذریعہ نامہ اعمال میں اضافہ ہو سکتا تھا، وہ اگر کسی وجہ سے چھوٹ گیا تو اس کو بالکلیہ مت چھوڑو، دوسرے وقت کر لو۔ اب چاہے اس کو’’قضا‘‘ کہو یا نہ کہو لیکن اس نفل کام کی تلافی ہو جائے۔یہی باتیں بزرگوں سے سیکھنے کی ہوتی ہیں، اس دن حضرت والا نے ایک عظیم باب کھول دیا۔ ہم لوگ واقعی یہی سمجھتے تھے ، اور فقہ کے اندر لکھا ہے کہ نوافل کی قضا نہیں ہوتی، لیکن اب معلوم ہوا کہ ٹھیک ہے، قضا تو نہیں ہو سکتی لیکن تلافی تو ہو سکتی ہے۔اس لئے کہ اس نفل کے چھوٹنے کی وجہ سے نقصان ہو گیا، نیکیاں تو گئیں لیکن بعد میں جب اللہ تعالی فراغت کی نعمت عطا فرمائے، اس وقت اس نفل کو ادا کر لو۔ اللہ تعالیٰ حضرت والا کے درجات بلند فرمائے،آمین۔
۔(کھانے کے آداب، اصلاحی خطبات، جلد پنجم، صفحہ۱۵۴)۔
یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔
Featured products
بوادر النوادر (3 جلد)۔
₨ 3190.00درس قرآن ڈیلکس ایڈیشن
₨ 8290.00