مفتی تقی عثمانی صاحب کے ابتدائی حالات
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں :۔
پاکستان اس طرح بنا تھا کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں جو اثاثے پاکستان کے حصے میں آئے تھے اَوّل تو وہ تناسب کے لحاظ سے پہلے ہی کم تھے، پھر بہت سے اثاثے بھارت میں رہ گئے تھے، اور ان کی وصولی کا تنازعہ مدت تک چلتا رہا۔ اس لئے پاکستان کی حکومت نے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ کام شروع کیا تھا۔
اس وقت دارالحکومت کراچی تھا، اور وزارتوں کا سیکرٹریٹ ٹین کی چادروں والے کمروں میں کام کرتا تھا۔ پیپر ویٹ کی جگہ پتھر استعمال ہوتے تھے اور کاغذوں کو جوڑنے کے لئے پن کے بجائے کانٹوں سے کام لیا جاتا تھا۔ اس وقت پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ”بورڈ تعلیمات ِ اسلامیہ“ کے نام سے ایک بورڈ تشکیل دیا اور اس کا دفتر بھی اسمبلی کے ساتھ کھپریل کی چھت والے ایک کمرے میں بنایا گیا۔ بورڈ کی صدارت کے لئے حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو دعوت دی گئی اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اُس کا رُکن بنایا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ زیر ترتیب دستور میں اسلامی تعلیمات سمونے کے لئے تجاویز مرتب کرے۔ اس حیثیت میں حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کو جیکب لائن میں ایک کوارٹر کرایہ پر دیا گیا۔ دوسری طرف اس دوران ہماری سب سے بڑی بہن محترمہ نعیمہ خاتون صاحبہ (مرحومہ) اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ہندوستان سے کراچی آگئیں۔ چنانچہ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ تقریباً ایک سال ”کنگس کورٹ“ میں رہنے کے بعد وہ فلیٹ عارضی طور پر ہماری بہن کو دے کر جیکب لائن کے اُس کوارٹر میں منتقل ہوگئے۔
اب جیکب لائن کا وہ مدرسہ جو حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے قائم فرمایا تھا اور جہاں میرے بڑے بھائی پہلے سے پڑھتے تھے، ہمارے نئے گھر سے قریب ہوگیا، اور مجھے اس قابل قرار دے دیا گیا کہ میں بھی جیکب لائن کے مدرسے میں پڑھ سکوں۔ لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شاید میرے نحیف و نزار جثّے اور بہت دُبلے پتلے وجود کو دیکھتے ہوئے میرے چار بھائیوں کے برعکس مجھے حفظ میں نہیں لگایا اور براہِ راست کچھ ملی جُلی اُردو فارسی شروع کرادی جس کا آغاز ”حمد باری“ سے ہوا۔ یہ مولانا عبدالسمیع بے دل مرحوم کی لکھی ہوئی کتاب ہے جس میں مختلف الفاظ کے معنی مثنوی اشعار میں بیان کئے گئے ہیں۔
اگرچہ مولانا عبدالسمیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ، بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن اُن کی یہ کتاب چونکہ بچوں کو الفاظ کے معنی یاد کرانے کے لئے مفید سمجھی گئی تھی، اس لئے علماء دیو بند نے اُس سے استفادہ میں کسی مسلکی تعصب کو آڑے آنے نہیں دیا اور وہ تمام مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھی۔ میں نے وہ اور فارسی کی گردانوں کی کتاب ”رسالہ نادر“ جو ہمارے دادا حضرت مولانا محمد یاسین رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف تھی، حضرت مولانا نور احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جیکب لائن کے مدرسے میں پڑھنی شروع کردی تھی، لیکن یہ پڑھائی میری کم سنی کی وجہ سے بے قاعدہ سی تھی کہ جب چاہا سبق پڑھ لیا اور جب چاہا چھٹی کرلی، بلکہ کوئی سبق کسی اُستاذ سے پڑھ لیا اور کوئی کسی اور اُستاذ سے۔ حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادوں میں مولانا احترام الحق صاحب مجھ سے کچھ بڑے تھے، اورجناب اعتصام الحق صاحب (حفظہما اللہ تعالیٰ) تقریباً میرے ہم عمر۔ بے قاعدہ اسباق سے فارغ بیشتر وقت اُن کی رفاقت میں گذر جاتا، اور کبھی حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر پر ہونے والی مجلسوں میں بیٹھ کر۔ اس تعلیم کی بے قاعدگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے اس زمانے میں کئی بار ٹائیفائیڈ ہوا جس کی وجہ سے مہینے مہینے بستر پر گزارنے پڑے۔
اقتباس از کتاب: عظیم عالمی شخصیت دو جلد
عظیم عالمی شخصیت(2جلد)۔
عظیم عالمی شخصیت(2جلد)۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی سوانح حیات ۔ ایک بہترین عظیم عالمی شخصیت کے احوال کا مطالعہ ۔
0 Comments