غزوہ حنین میں انصار کو کیا ملا؟

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

غزوہ حنین میں انصار کو کیا ملا؟
ؔحضرات انصار رضی اللہ عنہم کا دنیاوی لذتوں اور فانی سامان سے صبر کرنا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راضی ہونا

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ حنین کے دن ہوازن اور غطفان وغیرہ قبائل کفار اپنے جانور اور بچوں کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے(یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ جو لوگ میدان جنگ میں جمے رہنے اور نہ بھاگنے کا پختہ عزم کر کے آتے وہ اپنا سب کچھ ساتھ لے کر میدان جنگ میں آتے کہ مر جائیں گے لیکن واپس نہیں جائیں گے) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار مسلمان بھی تھے اور مکہ کے وہ لوگ بھی تھے جن کو آپ نے عام معافی دے دی تھی اور باوجود ان پر قابو پا لینے کے انہیں قتل نہیں کیا تھا۔
جنہیں طلقاء یعنی آزاد کر دہ لوگ کہا جاتا تھا۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو یہ سب میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے (دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے جہاں آپ تھے وہاں اس وقت آپ اکیلے رہ گئے تھے) تو پھر آپ نے اس دن دو آوازیں الگ الگ لگائیں ۔
پہلے آپ نے دائیں طرف متوجہ ہو کر آواز دی اے جماعت انصار ! تو انصار نے کہا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ خوش رہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں پھر بائیں طرف متوجہ ہو کر آپ نے آواز دی اے جماعت انصار ! تو انصار نے کہ لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خوش رہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں آپ سفید خچر پر سوار تھے ۔
آپ نے اس سے نیچے اتر کر فرمایا میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔پھر مشرکین کو شکست ہو گئی اور اس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ مال غنیمت ملا جسے آپ نے مہاجرین اور طلقاء (نو مسلم آزاد کردہ اہل مکہ) میں تقسیم کر دیا اور اس میں سے انصار کو کچھ نہ دیا۔
اس پر انصار (کے بعض افراد) نے کہا جب کوئی مشکل وقت آتا ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور جب مال غنیمت تقسیم کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ دوسروں کو دے دیا جاتا ہے۔ کسی طرح یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی تو آپ نے ان کو ایک خیمہ میں جمع فرمایا اور ان سے فرمایا اے جماعت انصار! وہ کیا بات ہے جو مجھ تک پہنچی ہے؟
سب خاموش رہے پھر آپ نے فرمایا اے جماعت ! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ تو دنیا کو لے کر جائیں اور تم لوگ اپنے گھروں کو اللہ کے رسول کو لے کر جاؤ؟ انصار نے کہا ہم بالکل راضی ہیں ۔
پھر آپ نے فرمایا اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار کسی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار والی گھاٹی میں چلوں گا۔ ہشام راوی کہتے ہیں کہ میں نے(حضرت انس رضی اللہ عنہ سے) کہا اے ابوحمزہ (یہ حضرت انس کی کنیت ہے) کیا آپ اس موقع پر وہاں موجود تھے؟
انہوں نے کہا میں وہاں سے کہاں غائب ہو سکتا تھا۔(اخرجہ البخاری)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ حنین میں بہت سا مال غنیمت ملا اور آپ نے یہ سب مال غنیمت قریش اور عرب کے (نو مسلم) مولفۃ القلوب افراد میں تقسیم کر دیا اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ ملا تو انصار کو یہ بات محسوس ہوئی یہاں تک کہ ان میں سے بعض افراد کی زبان سے یہ نکل گیا کہ اللہ کی قسم! حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی قوم سے جا ملے (اور اب یہ یہیں مکہ میں ٹھہر جائیں گے اور مدینہ واپس نہیں جائیں گے) توحضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر عرض کیا یا رسول اللہ!قبیلہ انصار اپنے جی میں آ پ کے بارے میں کچھ پا رہے ہیں آپ نے فرمایا کیوں ؟ انہوں نے کہا وہ اس وجہ سے ناراض ہیں کہ آپ نے سارا مال غنیمت اپنی قوم میں اور باقی عرب لوگوں میں تقسیم کر دیا اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ ملا۔
آپ نے فرمایا اے سعد! تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا میں بھی اپنی قوم کا ایک آدمی ہوں۔ (جو ان کا خیال ہے وہی میرا) آپ نے فرمایا اپنی قوم کو میرے لئے اس احاطہ میں جمع کر لو اور جب وہ جمع ہو جائیں تو مجھے خبر کر دینا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے باہر انصار میں اعلان کر دیا اور سب کو اس احاطہ میں جمع کر لیا ۔
کچھ مہاجرین آئے تو ان کو بھی (اندر آنے کی) اجازت دے دی اور کچھ اور آئے تو ان کو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے مجھے جہاں جمع کرنے کا حکم دیا تھا قبیلہ انصار وہاں جمع ہو چکا ہے ۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور ان میں بیان فرمانے کے لئے کھڑے ہو گئے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا اے جماعت انصار! کیا یہ بات نہیں ہے کہ میں جب تمہارے پاس گیا تھا تو تم سب گمراہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت دے دی اور تم سب فقیر تھے اللہ نے تمہیں غنی کر دیا اور تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا فرما دی؟
انصار نے کہا جی ہاں بالکل ایسے ہی ہوا۔ پھر آپ نے فرمایا اے جماعت انصار! تم جواب کیوں نہیں دیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا کہیں ؟
اور ہم کیا جواب دیں؟
سارا احسان تو اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! اگر تم چاہو تو یہ کہہ سکتے ہو اور(اس کہنے میں)تم سچے ہو گے اور سچے مانے جاؤ گے (یعنی اللہ اور رسول بھی تمہیں سچا سمجھیں گے) کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ کو لوگوں نے اپنے ہاں سے نکالا ہوا تھا ہم نے آپ کو ٹھکانہ دیا اور آپ فقیر تھے۔
ہم نے آپ سے مالی ہمدردی کی اور آپ خوفزدہ تھے ہم نے آپ کو امن دیا اور آپ بے یارومدد گار تھے ہم نے آپ کی نصرت کی اس پر انصار نے کہا یہ سارا احسان اللہ اور اس کے رسول کا ہے پھر آپ نے کہا تم گھاس پھوس کی طرح جلد ختم ہو جانے والی اس دنیا کی وجہ سے اپنے دلوں میں مجھ سے ناراض ہو گئے ہو۔ وہ تو میں نے مال غنیمت دے کر ان لوگوں کی تالیف قلب کی ہے جو ابھی مسلمان ہوئے ہیں اور میں نے تمہیں اس نعمت اسلام کے حوالہ کیا ہے جو اللہ نے تمہاری قسمت میں لکھی(کہ تم مال غنیمت کے نہ ملنے کے باوجود نعمت اسلام پر اللہ اور رسول سے راضی رہو گے) اے جماعت انصار! تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمام لوگ تو بکریاں اور اونٹ لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم لوگ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر جاؤ۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی میں چلوں گا۔ اگر ہجرت (کو فضیلت) نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں کا ایک آدمی ہوتا اے اللہ! انصار پر ،انصار کے بیٹوں پر۔
انصار کی بیٹوں کے بیٹوں پر رحم فرما (یہ سن کر) تمام انصار رونے لگ گئے اور اتنا روئے کہ داڑھیاں تر ہو گئیں اور انہوں نے کہا ہم اللہ کے رب ہونے پر اور اللہ کے رسول کی تقسیم مال پر راضی ہیں چنانچہ آپ واپس (اپنی قیام گاہ پر) تشریف لے گئے اور حضرات انصار بھی۔ (عندابن اسحاق و ھکذا رواہ الامام احمد)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اموال ہوازن بطور غنیمت عطا فرمائے اور آپ کچھ لوگوں کو سو(100)سو(100)اونٹ دینے لگے تو انصار کے کچھ لوگوں نے کہا اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت فرمائے کہ آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑے جا رہے ہیں ۔
حالانکہ ہوازن کا خون ابھی بھی ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے (جہد میں جان تو ساری ہم نے لگائی اور دے رہے ہیں دوسروں کو) کسی طرح سے یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گئی ۔
آپ نے آدمی بھیج کر انصار کو چمڑے کے ایک خیمہ میں جمع کیا اور آپ نے دوسروں کو ان کے ساتھ نہ بیٹھنے دیا۔ جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا وہ کیا بات ہے جو مجھے تمہاری طرف سے پہنچی ہے؟ تو سمجھدار انصار نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بڑوں نے کچھ نہیں کہا البتہ ہمارے چند نو عمر لوگوں نے کہا ہے کہ اللہ ،رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت فرمائے کہ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑے جا رہے ہیں ۔
حالانکہ ان کا خون (یعنی قریش کا خون) ابھی بھی ہماری تلوار سے ٹپک رہا ہے۔ آپ نے فرمایا ابھی بھی جو لوگ کفر سے اسلام میں آئے ہیں میں نے ان کو یہ مال غنیمت تالیف قلب کے لئے دیا ہے ۔
کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ مال لے کر جائیں اور تم نبی(کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کو لے کر اپنے گھروں کو جاؤ؟اللہ کی قسم! تم (نبی کی) جس ذات اقدس کو لے کر اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہو وہ اس (مال غنیمت سے (ہزار درجہ) بہتر ہے جسے وہ لوگ لے کر واپس جا رہے ہیں ۔
انصار نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم بالکل راضی ہیں ۔ پھر آپ نے ان سے فرمایا تم (میرے بعد) اس بات کو پاؤ گے کہ دوسروں کو تم پر (امارت اور دوسرے معاملات میں) بہت زیادہ ترجیح دی جائے گی تم اللہ اور اس کے رسول سے ملنے تک یعنی موت تک صبر سے کام لینا میں حوض (کوثر) پر (تمہارے انتظار میں) ہوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لیکن انصار صبر نہ کر سکے۔(اخرجہ البخاری)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 302 – 305

Written by Huzaifa Ishaq

24 October, 2022

Our Best Selling Product: Dars E Quran

You May Also Like…

0 Comments