عبدالرحمن بن عوف کا واقعہ
حضرات مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم کا آپس میں بھائی چارہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما جب مدینہ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہما میں بھائی چارہ کرا دیا ۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمٰن سے کہا اے میرے بھائی! میں مدینہ میں سب سے زیادہ مال والا ہوں۔ تم دیکھ کر (اپنی پسند کا) آدھا مال لے لو۔
اور میری دو بیویاں ہیں تم دیکھ لو ان میں سے جو نسی تمہیں پسند آئے میں اسے طلاق دے دوں گا(تم اس سے شادی کر لینا) تو حضرت عبدالرحمٰن نے کہا تمہارے گھر والوں میں اور تمہارے مال میں اللہ برکت عطا فرمائے۔ مجھے تو بازار کا راستہ بتا دو چنانچہ انہوں نے بازار کا راستہ بتا دیا۔ حضرت عبدالرحمٰن نے بازار میں جا کر خریدوفروخت شروع کر دی جس میں ان کو نفع ہوا۔
چنانچہ وہ کچھ پنیر اور گھی لے کر آئے۔ کچھ عرصہ وہ یونہی تجارت کرتے رہے۔ اس کے بعد ایک دن آئے تو ان (کے کپڑے) پر زعفران لگا ہوا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے(اس زمانے میں شادی کے موقع پر زعفران لگانے کا دستور تھا) آپ نے فرمایا تم نے اس کو کتنا مہر دیا ہے؟ انہوں نے کہا ایک گٹھلی کے برابر سونا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولیمہ کرو چاہے ایک ہی بکری ہو۔
حضرت عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ (میری تجارت میں برکت کا یہ حال تھا کہ) اگر میں ایک پتھر بھی اٹھاتا تو مجھے اس سے سونا چاندی حاصل ہونے کی امید ہوتی تھی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مہاجرین جب مدینہ آئے تو شروع میں انصار کا وارث مہاجر ہوتا تھا اس کے رشتہ دار وارث نہیں ہوتے تھے اور یہ اس بھائی چارہ کی وجہ سے تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں کرایا تھا۔
جب یہ آیت نازل ہوئی: ولکل جعلنا موالی
تو پھر مہاجر کا (مواخاۃ کے ذریعے) انصار کا وارث بننا منسوخ ہو گیا۔
حضرات تابعین کی ایک جماعت بیان کرتی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے مہاجرین کا آپس میں بھی بھائی چارہ کرایا اور مہاجرین اور انصار کا بھی آپس میں بھائی چارہ کرایا کہ وہ ایک دوسرے کی غم خواری کریں گے۔
چنانچہ وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے اور یہ نوے آدمی تھے کچھ مہاجرین میں سے کچھ انصار میں سے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سو آدمی تھے اور جب وَاُلُوا الْاَرْحَامِ والی آیت نازل ہوئی تو اس بھائی چارہ کی وجہ سے ان کی آپس میں جو وراثت چل رہی تھی وہ ختم ہو گئی۔ (ذکرہ ابن سعد)
کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 291 – 292
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
یہ کتاب حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی عربی کتاب
” حیات الصحابہ رضی اللہ عنہم ” کا اردو ترجمہ ہے ، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت وعقیدت سے بھرپورکتاب ہے ۔ اس کی مقبولیت کے لئےاتنی بات کافی ہےکہ حضرت رحمہ اللہ کےخلوص اورللہیت کےنتیجہ میں اس کتاب کااردوترجمہ بھی کیا گیا ، گویامشائخ عرب وعجم میں یہ کتاب مقبول ہوئی ۔
زیرنظر کتاب تلخیص شدہ ہے جس میں مکررات کو حذف کرکے ہرروایت پر ایک عنوان لگادیا تاکہ علماء کرام کے علاوہ عوام الناس بھی اس سے بآسانی مستفید ہوسکیں ۔
0 Comments