صحابہ کی شان فاقہ کشی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھوک
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے چہروں میں بھوک کے آثار دیکھ کر فرمایا تمہیں خوشخبری ہو عنقریب تم پر ایسا زمانہ آئے گا کہ تمہیں صبح کوبھی ثرید کا ایک پیالہ کھانے کو ملے گا اور اسی طرح شام کو بھی۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس وقت تو ہم بہتر ہوں گے آپ نے فرمایا نہیں آج تم اس دن سے بہتر ہو۔ (اخرجہ البزار)
حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم پر تین دن مسلسل ایسے گزر جاتے کہ انہیں کھانے کی کوئی چیز نہ ملتی تو وہ کھال کو بھون کر اسے کھالیا کرتے اور جب کوئی چیز نہ ملتی تو پتھر لے کر پیٹ پر باندھ لیتے۔ (اخرجہ ابن ابی الدنیا)
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو بہت سے اہل صفہ بھوک کی کمزوری کی وجہ سے نماز میں گر جاتے اور انہیں دیکھ کر دیہاتی لوگ کہتے کہ ان کو جنون ہو گیا ہے۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے تو ان کی طرف متوجہ ہو کر فرماتے کہ (اس بھوک پر) تمہیں اللہ کے ہاں جو ملے گا اور وہ تمہیں معلوم ہو جائے تو تم یہ چاہنے لگو کہ یہ فقر و فاقہ اور بڑھ جائے۔ (اخرجہ الترمذی وصححہ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سات سات صحابہ رضی اللہ عنہم صرف ایک کھجور چوس کر گزارہ کرتے اور گرے ہوئے پتے کھایا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے جبڑے سوج جاتے تھے۔ (اخرجہ الطبرانی قال الھیثمی 322/10 وفی خلید بن دعلج وھو ضعیف 1ھ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سات صحابہ رضی اللہ عنہم کو سخت بھوک لگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سات کھجوریں دیں۔ ہر آدمی کے لئے ایک کھجور۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف تشریف لے گئے تو مہاجرین اور انصار صبح صبح سخت سردی میں خندق کھود رہے تھے اور ان کے پاس غلام نہیں تھے جو ان کو یہ کام کر دیتے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تھکن اور بھوک کو دیکھ کر فرمایا:۔
ترجمہ:۔ ‘‘ اے اللہ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ لہٰذا آپ انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دیں۔’’۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں یہ شعر پڑھا:۔
ترجمہ:۔ ‘‘ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی ہے کہ جب تک دنیا میں رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے۔ ’’ (اخرجہ البخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار مدینہ کے اردگرد خندق کھود رہے تھے اور اپنی کمر پر مٹی اٹھا کر باہر لا رہے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے:۔
ترجمہ:۔ ‘‘ ہم لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی ہے کہ جب تک دنیا میں رہیں گے اسلام پر چلتے رہیں گے۔’’۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواب میں یہ فرماتے تھے:۔
ترجمہ:۔ ‘‘ اے اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے۔ اس لئے انصار اور مہاجرین میں برکت عطا فرما۔’’۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ہمیں قریش کے ایک تجارتی قافلہ کے مقابلہ کے لئے بھیجا اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کو ہمارا امیر بنایا اور آپ نے ہمیں کھجوروں کی ایک زنبیل بطور توشہ کے دی۔ آپ کو اس زنبیل کے علاوہ ہمارے لئے اور کوئی توشہ نہ ملا۔
چنانچہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیں ایک ایک کھجور دیتے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپ لوگ ایک کھجور کا کیا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا ہم ایک کھجور کو ایسے چوستے تھے جیسے بچہ (دودھ) چوستا ہے اور اوپر سے ہم پانی پی لیا کرتے تھے۔ تو وہ ایک کھجور ہمیں صبح سے رات تک کے لئے کافی ہو جاتی تھی۔ ہم اپنی لاٹھیوں سے پتے جھاڑتے اور انہیں پانی میں بھگو کر کھالیا کرتے۔
حضرت ابو خنیس غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ غزوۂ تہامہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم عسفان پہنچے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا؛۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بھوک نے ہمیں کمزور کر دیا۔
آپ ہمیں اجازت دیں ہم سواری کے جانور (ذبح کر کے) کھالیں۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا (کھالو) ۔
پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس بات کا پتہ چلا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا یا نبی اللہ! یہ آپ نے کیا کیا؟
آپ نے لوگوں کو سواری کے جانور ذبح کرنے کا حکم دے دیا (اس طرح تو سواریاں ختم ہو جائیں گی) تو لوگ پھر کس پر سوار ہوں گے۔
آپ نے فرمایا اے ابن الخطاب رضی اللہ عنہ! پھر تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگوں سے یہ کہیں کہ ان کے توشہ میں جتنا بچا ہوا ہے وہ سب آپ کی خدمت میں لے آئیں۔
پھر آپ اس سارے کو ایک برتن میں جمع کریں اور آپ پھر مسلمانوں کے لئے اللہ سے (برکت کی) دعا کریں۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کو اس کا حکم دیا۔
سب نے اپنے بچے ہوئے توشہ کو ایک برتن میں ڈال دیا۔ پھر آپ نے مسلمانوں کے لئے دعا فرمائی۔ پھر آپ نے فرمایا تم اپنے اپنے برتن لے آؤ چنانچہ ہر آدمی نے اس میں سے اپنا برتن بھر لیا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک غزوۂ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! دشمن سامنے آ گیا ہے (ان کے پاس کھانے کا خوب سامان ہے اس وجہ سے) ان کے پیٹ تو بھرے ہوئے ہیں اور ہم لوگ بھوکے ہیں۔
اس پر انصار نے کہا کیا ہم اپنے اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو نہ کھلا دیں؟۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس جو کچھ بچا ہوا کھانا ہے وہ اسے لے آئے۔
چنانچہ لوگ لانے لگے، کوئی ایک مدلاتا، کوئی صاع لاتا (ایک مد14 چھٹانک کا ہوتا ہے اور ایک صاع 31/2 سیر کا) کوئی کم لاتا، کوئی زیادہ۔ تو سارے لشکر سے بیس صاع سے زیادہ کچھ کھانے کا سامان جمع ہوا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایک طرف بیٹھ کر برکت کی دعا فرمائی۔
پھر آپ نے فرمایا کہ (اس میں سے آرام سے) لیتے جاؤ اور لوٹ مار نہ مچاؤ۔ چنانچہ ہر آدمی اپنی زنبیل میں اور اپنی بوری میں ڈال کر لے جانے لگا۔ اور انہوں نے اپنے تمام برتن بھر لئے یہاں تک کے بعض حضرات نے تو اپنی آستین میں گرہ لگا کر اس میں بھر لیا (اس زمانے میں آستین بڑی ہوتی تھی) جب سب لے جا چکے تو کھانا جوں کا توں اسی طرح تھا (اس میں کوئی کمی نہ آئی تھی) پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔
جو بندہ بھی سچے دل سے اس کلمہ کو پڑھے گا اور اسے لے کر اللہ کے ہاں حاضر ہوگا اللہ تعالیٰ اسے آگ کی گرمی سے ضرور بچائیں گے۔ (عندابی یعلی)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کی ایک عورت اپنے کھیت میں چقندر لگایاکرتی تھی۔ جب جمعہ کا دن آتا تو وہ چقندر کی جڑیں نکال کر ایک ہانڈی میں ڈال دیتی اور پھر ایک مٹھی جو پیس کر اس میں ڈال دیتی تو چقندر کی جڑیں گوشت والی ہڈی کا کام دیتیں۔
ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر اس عورت کے پاس جاتے اور اسے سلام کرتے وہ عورت یہ کھانا ہمارے سامنے رکھتی۔
ہمیں اس کے اس کھانے کی وجہ سے جمعہ کے دن کا بڑا شوق ہوتا اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اس میں چربی اور چکنائی بالکل نہ ہوتی اور ہمیں جمعہ کے دن کی بڑی خوشی ہوتی۔
حضرت ابن ابی اوفٰی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوے ایسے کئے جن میں ہم ٹڈی کھایا کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم ایک غزوہ میں تھے ہمارا کچھ مشرکوں سے مقابلہ ہوا۔ ہم نے ان کو شکست دے دی۔ وہ سب وہاں سے بھاگ گئے۔ ہم نے ان کی جگہ پر قبضہ کر لیا تو وہاں راکھ پر روٹی پکانے کے تندور بھی تھے۔ ہم ان کے تندور کی پکی ہوئی روٹیاں کھانے لگے ہم نے جاہلیت میں یہ سنا تھا کہ جو (گندم کی) روٹی کھائے گا وہ موٹا ہو جائے گا۔
چنانچہ جب ہم نے یہ روٹیاں کھالیں تو ہم میں سے ہر آدمی اپنے بازوؤں کو دیکھنے لگا کہ کیا وہ موٹا ہو گیا ہے؟
امام ہیثمیؒ نے فرمایا ہے کہ ایک روایت میں یہ ہے کہ ہم لوگ غزوہ خیبر کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔
ہمارا دشمن میدہ کی روٹیاں چھوڑ کر بھاگ گیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے خیبر فتح کر لیا تو چند یہودیوں کے پاس سے ہمارا گزر ہوا جو اپنے تندور کی راکھ میں روٹیاں پکا رہے تھے ہم نے ان کو وہاں سے بھگایا۔ وہ روٹیاں چھوڑ کر بھاگ گئے پھر ہم نے ان روٹیوں کو آپس میں تقسیم کیا۔ مجھے بھی روٹی کا ایک ٹکڑا ملا جس کا کچھ حصہ جلا ہوا تھا۔ میں نے یہ سن رکھا تھا کہ جو (گندم کی)روٹی کھائے گا وہ موٹا ہو جائے گا چنانچہ روٹی کھا کر میں اپنے بازوؤں کو دیکھنے لگا کہ کیا میں موٹا ہوگیا ہوں۔
کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 254 – 257
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
یہ کتاب حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی عربی کتاب
” حیات الصحابہ رضی اللہ عنہم ” کا اردو ترجمہ ہے ، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت وعقیدت سے بھرپورکتاب ہے ۔ اس کی مقبولیت کے لئےاتنی بات کافی ہےکہ حضرت رحمہ اللہ کےخلوص اورللہیت کےنتیجہ میں اس کتاب کااردوترجمہ بھی کیا گیا ، گویامشائخ عرب وعجم میں یہ کتاب مقبول ہوئی ۔
زیرنظر کتاب تلخیص شدہ ہے جس میں مکررات کو حذف کرکے ہرروایت پر ایک عنوان لگادیا تاکہ علماء کرام کے علاوہ عوام الناس بھی اس سے بآسانی مستفید ہوسکیں ۔
0 Comments