صبر و تحمل کی سنتیں

مسنون زندگی قدم بہ قدم

صبر و تحمل کی سنتیں

کسی نقصان پر اپنے دل میں کوئی منفی خیالات نہ پیدا ہونے دینا اور اس کے ثمرات کو قبول کرلینا، ان معاملات کی بنا پر خود کو کسی اور کو برا بھلا نہ کہنا صبر ہے۔
دوسری طرف کسی معاملے میں جلد بازی نہ کرنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ غیر ضروری جلد بازی معاملات کو خراب کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ تعجیل کا کام شیطان کا ہے۔

اپنے تمام معاملات میں صبر و تحمل سے کام لیں، یہ ایک فعال جذبہ ہے جس طرح انسانی ذات کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک جسمانی اور دوسرا نفسیاتی۔ اس طرح صبر کی بھی دو اقسام ہیں ایک جسمانی جیسے تکالیف کو برداشت کرنا، اسی طرح غیرضروری خواہشات سے خود کو روکنا بھی صبر ہے۔
صبر صرف مصائب کے لیے مخصوص نہیں ہے اس کی ضرورت تو ہروقت ہوتی ہے۔ “صبر” ایمان، دانش، اُمید اور محبت کے عملی اظہار کا دوسرا نام ہے۔ معاملات کو صبر سے دیکھنے سے آپ ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر کرو کفران نعمت نہ کرو۔’’ (البقرہ:52)

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جن بھلائی اور نیکی کے کاموں یعنی اعمال خیر کا حکم دیا ہے، ان میں ایک نیک عمل برداشت اور تحمل ہے، برداشت اور تحمل کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں یا دین کی خاطر خواہ کتنی ہی مصیبتیں اور گھاٹیاں پیش آئیں، ان کو صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کیا جائے، اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھا جائے اور کسی بھی حالت میں مایوس نہ ہوا جائے۔

غصہ کو پینا

دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر گھر کے کسی ملازم یا ملازمہ سے یا کسی مسلمان بھائی سے کوئی قصور ہو جائے جس کے سبب غصہ آجائے تو اس غصے کو پی لیا جائے یعنی اس پر قابو پاکر قصور وار کو معاف کردیا جائے۔ اسی طرح زبان یا ہاتھ سے برائی کرنے والے کی بدگوئی یا برائی کو بھی برداشت کرلیا جائے، اگرچہ اس سے بدلہ لینے کی طاقت اور وسائل بھی ہوں، اس طرزِ عمل کو بھی برداشت اور تحمل کہا جائے گا یا عفو و درگزر اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے:۔
۔”وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ”۔ (سورۂ آل عمران، آیت:134)
۔‘‘یعنی جو لوگ غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔’’۔

اللہ کا ایک نام ‘‘الحلیم’’ بھی ہے

اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک پاک نام بھی ‘‘الحلیم’’ ہے یعنی اللہ جل شانہ بہت حلم والا ہے، وہ گناہوں کو معاف کرنے میں بڑا حلیم ہے، گناہوں کی سزا جلد نہیں دیتا، گنہگاروں کا رزق بند نہیں کرتا، ان کی صحت و عافیت کو تباہ نہیں کرتا بلکہ ان کو اپنی اصلاح اور توبہ کی مہلت دیتا ہے، برداشت و تحمل اور عفو و درگزر بھی حلم ہی کی شاخیں ہیں جو مسلمان اللہ تعالیٰ کے ‘‘الحلیم’’ ہونے پر ایمان رکھتا ہے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ حلم، تحمل اور برداشت کو اپنی زندگی کا اُصول اور اپنی عادت بنالے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عفوو درگزر

ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی زندہ تفسیر تھے۔ آپ کے عمل اور قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے احکام میں مطلق کوئی فرق نہ تھا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اطہر کو مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ جیساکہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و تحمل اور آپ کی برداشت کی کوئی انتہا نہ تھی اس کا جو نمونہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کے سامنے پیش کیا ہے اگر سارے مسلمان اس کو مشعل راہ بنائیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ باہمی نفرت اور جھگڑے فساد ہمیشہ کے لیے ختم نہ ہو جائیں اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے نام لیوا ‘‘انّما المؤمنون اخوۃٌ’’ کی تصویر نہ بن جائیں۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم برائی کے بدلے برائی نہ کرتے بلکہ معاف فرما دیتے اور درگزر کرتے تھے۔ (بحوالہ ابوداؤد، ترمذی)

انتقام پر قدرت کے باوجود صبر کرنا سنت ہے

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کوئی سختی اور مصیبت ایسی نہ تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں اور منافقوں کے ہاتھوں نہ جھیلی ہو۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء رسانی میں کمینگی کی انتہا کردی۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وطن اور گھر بار چھوڑنا پڑا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب کچھ بڑے صبر اور تحمل کے ساتھ برداشت کیا اور جب فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غلبہ دے دیا اور غلبہ بھی ایسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے پر وہ سب خاک و خون میں لوٹائے جاسکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر سب کو معاف فرما دیا:۔
۔”میں تم سے وہی کہوں گا یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام (ملامت) نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو”۔

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 340 تا 341

Written by Huzaifa Ishaq

Blogs

Categories

15 October, 2022

You May Also Like…

Pin It on Pinterest

Share This