شیخ بو علی سینا اور ولی اللہ کی ملاقات: عقل و فلسفہ سے روحانیت کی طرف سفر
شیخ بو علی سینا، جو اسلامی دنیا کے عظیم ترین فلسفیوں اور سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں، نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علوم عقلیہ اور فلسفہ میں گزارا۔ ایک مرتبہ، ایک بزرگ ولی اللہ نے ان سے دریافت کیا کہ ساری زندگی فلسفہ میں مشغول رہنے کا کیا نتیجہ نکلا؟ شیخ بو علی سینا نے جواب دیا کہ انہیں ایک خاص گھڑی کا علم ہے جس میں لوہا آٹے کی طرح نرم ہو جاتا ہے۔
بزرگ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ جب وہ گھڑی آئے تو مجھے بتانا۔ شیخ بو علی سینا نے وہ وقت بتایا، اور خود اپنے ہاتھ میں لوہا لے کر اس میں انگلی داخل کردی، جس سے لوہا نرم ہو کر انگلی کے اندر دھنس گیا۔
اس کے بعد، جب وہ مخصوص وقت گزر گیا، بزرگ نے شیخ بو علی سینا سے دوبارہ لوہے میں انگلی داخل کرنے کا کہا۔ شیخ بو علی سینا نے جواب دیا کہ اب ممکن نہیں کیونکہ وہ وقت گزر چکا ہے۔ تب بزرگ نے کرامت دکھاتے ہوئے اپنی انگلی لوہے میں داخل کر دی اور فرمایا: “عقلمند کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنی عمر ایسی بے فائدہ چیزوں میں ضائع کرے۔ یہ کوئی کمال نہیں، بلکہ اصل کمال یہ ہے کہ انسان آخرت کے لیے محنت کرے اور اپنے اللہ کو راضی کر لے۔”
یہ واقعہ شیخ بو علی سینا پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔ زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے دل سے توبہ کی، اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کیا، اور تمام حقوق ادا کر دیے۔ وہ تلاوتِ قرآن پاک میں مشغول ہو گئے اور ہر تین دن میں قرآنِ پاک ختم کرنے لگے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو صحیح بخاری شریف ان کے سینے پر رکھی ہوئی تھی۔
یہ الفاظ کتاب فروش ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے ہیں۔