حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو وصیت کرنا
حضرت ضبہ بن محصنؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو یہ خط لکھا:۔
۔” امابعد! بعض دفعہ لوگوں کو اپنے بادشاہ سے نفرت ہو جایا کرتی ہے میں اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے اور تمہارے بارے میں لوگوں کے دلوں میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو (اگر سارا دن حدود شرعیہ قائم نہ کر سکو تو) دن میں ایک گھڑی ہی حدود قائم کرو لیکن روزانہ ضرور قائم کرو۔
جب دو کام ایسے پیش آ جائیں کہ ان میں سے ایک اللہ کے لئے ہو اور دوسرا دنیا کے لئے تو دنیا والے کام پر اللہ والے کو ترجیح دینا کیونکہ دنیا تو ختم ہو جائے گی اور آخرت باقی رہے گی اور بدکاروں کو ڈراتے رہو اور ان کو ایک جگہ نہ رہنے دو بلکہ انہیں بکھیر دو (ورنہ اکٹھے ہو کر بدکاری کے منصوبے بناتے رہیں گے) بیمار مسلمان کی عیادت کرو اور ان کے جنازے میں شرکت کرو اور اپنا دروازہ کھلا رکھو اور مسلمانوں کے کام خود کرو کیونکہ تم بھی ان میں سے ایک ہو۔
بس اتنی سی بات ہے کہ اللہ نے تم پر ان سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم نے اور تمہارے گھر والوں نے لباس، کھانے اور سواری میں ایک خاص طرز اختیار کر لیا ہے جو عام مسلمانوں میں نہیں ہے۔
اے عبداللہ! تم اپنے آپ کو اس سے بچاؤ کہ تم اس جانور کی طرح ہو جاؤ جس کا سرسبز وادی پر گزر ہوا اور اسے زیادہ سے زیادہ گھاس کھا کر موٹا ہو جانے کے علاوہ اور کوئی فکر نہ تھا۔
وہ زیادہ کھا کر موٹا تو ہو گیا لیکن اسی میں مر گیا اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ امیر جب ٹیڑھا ہو جائے گا تو اس کے مامور بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے اور لوگوں میں سب سے زیادہ بدبخت وہ ہے جس کی وجہ سے رعایا بدبخت ہو جائے”۔
کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 508 – 509

حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
یہ کتاب حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی عربی کتاب
” حیات الصحابہ رضی اللہ عنہم ” کا اردو ترجمہ ہے ، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت وعقیدت سے بھرپورکتاب ہے ۔ اس کی مقبولیت کے لئےاتنی بات کافی ہےکہ حضرت رحمہ اللہ کےخلوص اورللہیت کےنتیجہ میں اس کتاب کااردوترجمہ بھی کیا گیا ، گویامشائخ عرب وعجم میں یہ کتاب مقبول ہوئی ۔
زیرنظر کتاب تلخیص شدہ ہے جس میں مکررات کو حذف کرکے ہرروایت پر ایک عنوان لگادیا تاکہ علماء کرام کے علاوہ عوام الناس بھی اس سے بآسانی مستفید ہوسکیں ۔