مکہ سے ہجرت کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی اور ایثار
حضرت ابوبکر کا مال خرچ کرنا
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور اقدسؐ (مکہ سے ہجرت کیلئے) روانہ ہوئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھ اپنا سارا مال پانچ ہزار یا چھ ہزار درہم جتنا بھی تھا، سارا لے لیا اور لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے گئے۔
پھر ہمارے دادا حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ ہمارے گھر آئے۔ ان کی بینائی جا چکی تھی۔ انہوں نے کہا:۔
اللہ کی قسم! میرے خیال میں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ تم لوگوں کو جانے کے صدمہ کے ساتھ مال کا صدمہ بھی پہنچا گئے ہیں۔ یعنی وہ خود تو گئے ہی ہیں میرا خیال یہ ہے کہ وہ مال بھی سارا لے گئے ہیں اور تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑا ہے۔
میں نے کہا دادا جان! ہرگز نہیں وہ تو ہمارے لئے بہت کچھ چھوڑ کر گئے ہیں اور میں نے ( چھوٹی چھوٹی) پتھریاں لا کر گھر کے اس طاق میں رکھ دیں جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا مال رکھا کرتے تھے (اس زمانے میں درہم و دینار چھوٹی پتھریوں کی طرح کے ہوتے تھے)۔ لہٰذا درہم و دینار کے سائز کی پتھریاں رکھی ہوں گی (پھر میں نے ان پتھریوں پر ایک کپڑا ڈال دیا پھر میں نے اپنے دادا جان کا ہاتھ پکڑ کر ان سے کہا:۔
اے دادا جان! اپنا ہاتھ اس مال پر رکھیں ۔ چنانچہ انہوں نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا ( وہ یہ سمجھے کہ یہ درہم و دینار ہی ہیں) تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں اگر وہ تمہارے لئے اتنا مال چھوڑ گئے ہیں تو انہوں نے اچھا کیا اس سے تمہارا گزارا ہو جائے گا۔ حضرت اسماء کہتی ہیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے ہمارے لئے کچھ نہیں چھوڑا تھا لیکن میں نے یہ کام بڑے میاں (دادا جان) کی تسلی کے لئے کیا تھا۔
کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 528 – 529

حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
یہ کتاب حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی عربی کتاب
” حیات الصحابہ رضی اللہ عنہم ” کا اردو ترجمہ ہے ، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت وعقیدت سے بھرپورکتاب ہے ۔ اس کی مقبولیت کے لئےاتنی بات کافی ہےکہ حضرت رحمہ اللہ کےخلوص اورللہیت کےنتیجہ میں اس کتاب کااردوترجمہ بھی کیا گیا ، گویامشائخ عرب وعجم میں یہ کتاب مقبول ہوئی ۔
زیرنظر کتاب تلخیص شدہ ہے جس میں مکررات کو حذف کرکے ہرروایت پر ایک عنوان لگادیا تاکہ علماء کرام کے علاوہ عوام الناس بھی اس سے بآسانی مستفید ہوسکیں ۔