جہیز سے متعلق اسلامی تعلیمات
جہیز کی موجودہ صورت ایک پریشان کن امر ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار صاحبزادیوں کی شادیاں کیں اور کسی ایک کو بھی جہیز تک نہیں دیا ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی چار چیزیں یعنی چادر، مشکیزہ، تکیہ اور بستر دیا تھا جو کہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے دئیے ہوئے مہر معجل کی رقم سے لیا گیا تھا ۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانہ میں بھی کہیں اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ لڑکی والوں سے فرمائشی جہیز مانگا گیا ہو ۔
شادی کے لئے جہیز کوئی لازمی شرط نہیں ہے کہ یہ ضروری سزا والدین کو دی جائے ۔ بلکہ یہ ذمہ داری لڑکے والوں کی ہونی چاہئے کہ اپنے گھر میں دلہن لانے سے پہلے گھر کا اثاثہ اور دلہن کی ضروریات کو فراہم کرکے رکھیں ۔ لڑکے والوں کو اسکا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ مطالبات رکھیں یا لڑکی کو طعنہ دیں ۔
بیٹی کا جہیز والد کے ذمہ نہیں ہے ۔ آج کل تو یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ :۔
۔1۔ جہیز کو لڑکی کی شادی کے لئے لازمی شرط سمجھا جاتا ہے ۔ چنانچہ جب تک جہیز کے پیسے جمع نہ ہوں گے تب تک شادی نہیں کریں گے ۔
۔2۔ جہیز کی مقدار اور لازمی اشیاء کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
۔3۔ بات صرف اتنی نہیں کہ لڑکی کی ضروریات پوری کرکے اسکا دل خوش کیا جائے بلکہ جہیز کی نمائش کی رسم بھی ضروری ہوچکی ہے ۔
۔4۔ سب سے گھٹیا اور لعنت زدہ چیز اس جہیز سے متعلق یہ عام ہوچکی ہے کہ لڑکی کا ہونے والا شوہر یا اُسکے سسرال کے لوگ جہیز پر نظر رکھتے ہیں کہ آنے والی کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اصل تو جہیز کی دولت کو دیکھنا ہے ۔
۔5۔ اس سے بھی بڑی لعنت یہ کہ پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے جہیز کے مطالبات رکھے جاتے ہیں جو کہ بعض اوقات اتنے ظالمانہ ہوتے ہیں کہ لڑکی کا والد خود کشی کی نوبت کو جا پہنچتا ہے ۔
اس میں اسلامی تعلیمات کا پہلو ضرور یاد رکھیں کہ اگر ایک باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اپنی بیٹی کو تحفے میں جتنی بھی چیزیں بہ آسانی اور اپنی خوشی سے دے سکتا ہو تو اسمیں کوئی شرعی اخلاقی یا قانونی خرابی نہیں ہے ۔ شرعی اعتبار سے اس قسم کے جہیز کے لئے کوئی مقدار بھی مقرر نہیں ہے ۔ باپ اپنے دل سے جو کچھ دینا چاہے وہ دے سکتا ہے ۔
لیکن خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب اس کو نمود و نمائش کا ذریعہ بنایا جائے ۔ لڑکے والے زیادہ سے زیادہ جہیز کی امیدیں لگا کر بیٹھ جائیں ۔ اگر کوئی لڑکی جہیز میں تھوڑا سامان لے کر آئے تو اُسکو پورے خاندان والے طعنوں سے جینا حرام کرتے ہیں ۔
جہیز کی انہی خرابیوں کو ختم کرنے کے لئے معاشرے کے تمام طبقات کو ان تصورات کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا ۔ یہ ایک ایسی وبا بن گئی ہے جس نے ہمارے معاشرے کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اب کیا پڑھے لکھے اور کیا جاہل سب ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں ۔ عیش و آرام اور غیر ضروری خرچوں کو پورا کرنے کے لئے شادی کے برسوں بعد بھی فرمائشیں کی جانے لگی ہیں اور پوری نہ ہونے کی صورت میں زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ پلوں میں توڑ دینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ کتنی ہی بیٹیوں کے دردناک واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ جہیز کے مطالبے کی وجہ سے بیٹیاں والد کی چوکھٹ کو پار ہی نہیں کرسکیں ۔
اس وباء کے تدارک کے لئے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اہم کردار ادا کریں کیونکہ عام طور پر فرمائشیں ساس اور نندوں کی طرف سے ہی ہوتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور شریعت مطہرہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
اقتباس از کتاب : بیٹیاں جنت کی خوشخبریاں
اگر آپ یہ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو ابھی آن لائن آرڈر کریں ۔ نیچے دی گئی تصویر پر موجود
SHOP NOW
کے بٹن پر کلک کریں اور اپنا آرڈر بک کروائیں ۔ مزید معلومات کےلئے واٹس ایپ نمبر ۔03006395179۔
بیٹیاں جنت کی خوشخبریاں
بیٹیاں جنت کے خوشخبریاں
بیٹیاں دنیا میں راحت اور آخرت میں جنت کا ذریعہ ہیں ۔
نبی علیہ السلام کی اک حدیث کا مفہوم ہے کہ میری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا ہے ۔
مصنف: قاری محمد اسحاق ملتانی مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ
0 Comments