حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا حضرات اہل رائے سے مشورہ کرنا
حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا کرتے تھے اور بدر والوں کے ساتھ ان سے بھی مشورہ کیا کرتے تھے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے سے آخر دم تک فتویٰ کا کام انجام دیتے رہے۔
حضرت یعقوب بن زید کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب بھی کوئی اہم مسئلہ پیش آتا تو وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیتے اور فرماتے اے غوطہ لگانے والے! (یعنی ہر معاملہ کی گہرائی تک پہنچنے والے!) غوطہ لگاؤ (اور اس اہم مسئلہ میں اچھی طرح سوچ کر اپنی رائے پیش کرو) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے زیادہ حاضر دماغ، زیادہ عقلمند، زیادہ علم والا اور زیادہ بردبار ہو۔
میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو پیچیدہ اور مشکل مسائل کے پیش آنے پر بلاتے اور فرماتے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ تمہارے سامنے ہے۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کے مشورے پر عمل کرتے حالانکہ ان کے چاروں طرف بدری حضرات مہاجرین و انصار کا مجمع ہوتا۔
حضرت ابن شہاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تو آپ نوجوانوں کو بلاتے اور ان کی عقل و سمجھ کی تیزی کو اختیار کرتے ہوئے ان سے مشورہ لیتے۔
امام بیہقی نے حضرت ابن سیرین سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مزاج مشورہ کرکے چلنے کا تھا چنانچہ بعض دفعہ مستورات سے بھی مشورہ لے لیا کرتے اور ان مستورات کی رائے میں ان کو کوئی بات اچھی نظر آتی تو اس پر عمل کر لیتے۔
کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 469 – 470
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
یہ کتاب حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی عربی کتاب
” حیات الصحابہ رضی اللہ عنہم ” کا اردو ترجمہ ہے ، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت وعقیدت سے بھرپورکتاب ہے ۔ اس کی مقبولیت کے لئےاتنی بات کافی ہےکہ حضرت رحمہ اللہ کےخلوص اورللہیت کےنتیجہ میں اس کتاب کااردوترجمہ بھی کیا گیا ، گویامشائخ عرب وعجم میں یہ کتاب مقبول ہوئی ۔
زیرنظر کتاب تلخیص شدہ ہے جس میں مکررات کو حذف کرکے ہرروایت پر ایک عنوان لگادیا تاکہ علماء کرام کے علاوہ عوام الناس بھی اس سے بآسانی مستفید ہوسکیں ۔