امارت اور عہدہ قبول کرنے سے انکار کے واقعات
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقداد بن اسود کو گھوڑے سواروں کی ایک جماعت کا امیر بنایا۔ جب یہ واپس ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا۔ تم نے امارت کو کیسے پایا؟ انہوں نے کہا یہ لوگ مجھے اٹھاتے اور بٹھاتے تھے یعنی میرا خوب اکرام کرتے تھے جس سے اب مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میں وہ پہلے جیسا مقداد نہیں رہا۔ (میری تواضع والی کیفیت میں کمی آ گئی ہے)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واقعی امارت ایسی ہی چیز ہے۔
حضرت مقداد نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ آئندہ میں کبھی بھی کسی کام کا ذمہ دار نہیں بنوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد لوگ ان سے کہا کرتے تھے کہ آپ آگے تشریف لا کر ہمیں نماز پڑھا دیں تو یہ صاف انکار کر دیتے (کیونکہ نماز میں امام بننا امارت صغریٰ ہے)۔
دوسرا واقعہ:۔
حضرت رافع طائی کہتے ہیں میں ایک غزوۂ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ہم واپس آنے لگے تو میں نے کہا:۔
اے ابوبکر! مجھے کچھ وصیت فرما دیجئے۔
انہوں نے فرمایا فرض نماز اپنے وقت پر پڑھا کرو، اپنے مال کی زکوٰۃ خوشی خوشی ادا کیا کرو، رمضان کے روزے رکھا کرو، بیت اللہ کا حج کیا کرو اور اس بات کا یقین رکھو کہ اسلام میں ہجرت بہت اچھا عمل ہے اور ہجرت میں جہاد بہت اچھا عمل ہے اور تم امیر نہ بننا۔ پھر فرمایا کہ یہ امارت جو آج تمہیں ٹھنڈی اور مزیدار نظر آ رہی ہے۔
عنقریب یہ پھیل کر اتنی بڑھے گی کہ نااہل لوگ بھی اسے حاصل کر لیں گے (اور یہ یاد رکھو کہ) جو بھی امیر بنے گا اس کا حساب سب لوگوں سے زیادہ لمبا ہو گا اور اس پر عذاب سب سے زیادہ سخت ہو گا اور جو امیر نہیں بنے گا اس کا حساب سب لوگوں سے زیادہ آسان ہو گا اور اس کا عذاب سب سے ہلکا ہو گا۔ کیونکہ امراء کو مسلمانوں پر ظلم کرنے کے سب سے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور جو مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے۔ وہ اللہ کے عہد کو توڑتا ہے اس لئے کہ یہ مسلمان اللہ کے پڑوسی اور اللہ کے بندے ہیں۔ اللہ کی قسم! تم میں سے کسی کے پڑوسی کی بکری یا اونٹ پر کوئی مصیبت آتی ہے (وہ بکری یا اونٹ چوری ہو جاتا ہے یا کوئی اسے مار دے یا ستائے تو اس پڑوسی کی ہمدردی او رحمایت میں) غصہ کی وجہ سے ساری رات اس کے پٹھے پھولے رہتے ہیں اور کہتا رہتا ہے میرے پڑوسی کی بکری یا اونٹ پر فلاں مصیبت آئی ہے (جب انسان اپنے پڑوسی کی وجہ سے اتنا غصہ میں آتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اپنے پڑوسی کی خاطر غصہ میں آنے کے زیادہ حق دار ہیں۔
تیسرا واقعہ:۔
حضرت سعید بن عمر بن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ ان کے چچا حضرت خالد بن سعید بن عاص اور حضرت ابان بن سعید بن عاص اور حضرت عمرو بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کو جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر پہنچی تو (یہ حضرات مختلف علاقوں کے امیر تھے خبر ملتے ہی) یہ حضرات اپنے اپنے عہدے چھوڑ کر (مدینہ منورہ) واپس آ گئے۔ ان حضرات سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کوئی آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے امیروں سے زیادہ امیر بننے کا حقدار نہیں ہے۔ لہٰذا تم لوگ اپنے علاقوں میں اپنے عہدوں پر واپس چلے جاؤ۔
ان حضرات نے کہا اب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کی طرف سے امیر بن کر جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
چنانچہ یہ حضرات اللہ کے راستہ میں ملک شام چلے گئے اور وہاں ہی سب کے سب شہید ہوگئے۔ (ان حضرات کی طبیعتوں میں امارت سے گریز تھا اور اللہ کے راستہ میں جان دینے کا شوق تھا)۔
چوتھا واقعہ:۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو امیر بنانے کے لئے بلایا۔ انہوں نے امارت قبول کرنے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو انکار کر دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم امیر بننے کو برا سمجھتے ہو حالانکہ اسے تو اس شخص نے مانگا تھا جو تم سے بہتر تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا وہ کون؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ حضرت یوسف بن یعقوب ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا حضرت یوسف تو خود اللہ کے نبی تھے اور اللہ کے نبی کے بیٹے تھے (انہیں ایسا کرنے کا حق تھا) میں تو امیمہ نامی عورت کا بیٹا ابوہریرہ ہوں اور امیر بننے میں مجھے تین اور دو (کل پانچ) باتوں کا ڈر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پانچ ہی کیوں نہیں کہہ دیتے؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (دو باتیں تو یہ ہیں کہ) میں علم کے بغیر کوئی بات کہہ دوں اور کوئی غلط فیصلہ کر دوں۔ (امیر بن کرمجھ سے یہ دو غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں جس کے نتیجہ میں مجھے یہ تین سزائیں امیر المؤمنین کی طرف سے دی جا سکتی ہیں) میری کمر پر کوڑے مارے جائیں اور میرا مال چھین لیا جائے اور مجھے بے آبرو کر دیا جائے۔
پانچواں واقعہ:۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں قاضی بنانا چاہا تو انہوں نے معذرت کر دی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :۔
قاضی تین قسم کے ہیں ایک نجات پائے گا دو دوزخ میں جائیں گے۔
جس نے ظالمانہ فیصلہ کیا یا اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کیا وہ ہلاک ہو گا اور جس نے حق کے مطابق فیصلہ کیا وہ نجات پائے گا۔
چھٹا واقعہ:۔
حضرت عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زیاد نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو خراسان کا حاکم بنا کر بھیجنا چاہا تو انہوں نے معذرت کر دی۔
ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کیا آپ نے خراسان کی امارت چھوڑ دی؟
انہوں نے کہا اللہ کی قسم! مجھے اس بات سے کوئی خوشی نہیں ہے کہ مجھے تو خراسان کی گرمی پہنچے اور زیاد اور اس کے ساتھیوں کو اس کی ٹھنڈک یعنی میں تو وہاں امیر بن کر مشقت اٹھاتا رہوں اور وہ لوگ وہاں کی آمدنی سے مزے اڑاتے رہیں۔
مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ میں تو دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہوں اور میرے پاس زیاد کا ایسا خط آئے کہ اگر میں اس پر عمل کروں تو ہلاک ہو جاؤں اور اگر اس پر عمل نہ کروں تو (زیاد کی طرف سے) میری گردن اڑا دی جائے۔
پھر زیاد نے حضرت حکم بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ سے خراسان کا امیر بننے کو کہا جسے انہوں نے قبول کر لیا۔
راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت عمران نے فرمایا کوئی ہے جو حکم کو میرے پاس بلا لائے۔ چنانچہ حضرت عمران کا قاصد گیا اور اس پر حضرت حکم حضرت عمران کے پاس آئے تو حضرت عمران نے ان سے فرمایا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی کی ایسی بات ماننی بالکل جائز نہیں ہے جس میں خدا کی نافرمانی ہو رہی ہو؟
حضرت حکم نے کہا جی ہاں۔
اس پر حضرت عمران نے الحمدﷲ کہہ کر اللہ کا شکر ادا کیا یا اللہ اکبر کہہ کر خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت حسن کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ زیاد نے حضرت حکم غفاری رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا امیر بنایا تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور لوگوں کی موجودگی میں ان سے ملے اور فرمایا کیا آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کے پاس کیوں آیا ہوں؟
حضرت حکم نے کہا (آپ ہی بتائیں) آپ کیوں آئے ہیں؟
حضرت عمران نے کہا کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک آدمی سے اس کے امیر نے کہا تھا کہ اپنے آپ کو آگ میں پھینک دو (وہ آدمی تو آگ کی طرف چل دیا تھا لیکن دوسرے) لوگوں نے جلدی سے اسے پکڑ کر آگ میں چھلانگ لگانے سے روک دیا تھا۔
یہ سارا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اگر یہ آدمی آگ میں گر جاتا تو یہ آدمی بھی اور اسے حکم دینے والا امیر بھی دونوں دوزخ میں جاتے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی صورت میں کسی کی بات ماننی جائز نہیں ہے۔
حضرت حکم نے کہا ہاں (یاد ہے) حضرت عمران نے کہا میں تو تمہیں صرف یہ حدیث یاد دلانا چاہتا تھا۔
کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 473 – 475
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
یہ کتاب حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی عربی کتاب
” حیات الصحابہ رضی اللہ عنہم ” کا اردو ترجمہ ہے ، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت وعقیدت سے بھرپورکتاب ہے ۔ اس کی مقبولیت کے لئےاتنی بات کافی ہےکہ حضرت رحمہ اللہ کےخلوص اورللہیت کےنتیجہ میں اس کتاب کااردوترجمہ بھی کیا گیا ، گویامشائخ عرب وعجم میں یہ کتاب مقبول ہوئی ۔
زیرنظر کتاب تلخیص شدہ ہے جس میں مکررات کو حذف کرکے ہرروایت پر ایک عنوان لگادیا تاکہ علماء کرام کے علاوہ عوام الناس بھی اس سے بآسانی مستفید ہوسکیں ۔