العلم صید والکتابۃ قیدہ
اشعار
“العلم صید والکتابۃ قیدہ
قید صیودک بالحبال الواثقہ
فمن الحماقۃ ان تصید غزالہ
و تترکھا بین الخلائق طالقہ”
ترجمہ
“علم ایک شکار ہے اور لکھنا اس کو قید کرنا ہے
اپنے شکار کو مضبوط رسیوں سے باندھ لو
بے وقوفی ہے کہ تم ایک ہرن کا شکار کرو
اور اسے مخلوقات کے درمیان آزاد چھوڑ دو”
تشریح
یہ اشعار ایک عربی کہاوت پر مبنی ہیں جو علم کی اہمیت اور اسے محفوظ کرنے کے اصول کو بیان کرتی ہے۔ اس کہاوت میں علم کو ایک نایاب شکار کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ “علم ایک شکار ہے اور لکھنا اس کو قید کرنا ہے”۔ یہاں علم کو حاصل کرنا ایک قیمتی شکار کی مانند قرار دیا گیا ہے جو کسی بھی وقت ضائع ہو سکتا ہے اگر اسے سنبھالا نہ جائے۔
علم کو لکھنے کی ضرورت
یہ کہاوت ہمیں سمجھاتی ہے کہ علم کو یاداشت کے ذریعے محفوظ رکھنا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا، اور وقت کے ساتھ اسے بھول جانے کا امکان ہوتا ہے۔ لہذا، جب بھی کوئی شخص علم حاصل کرتا ہے تو اسے لکھ کر محفوظ کر لینا چاہیے۔ لکھنا علم کو قید کرنے کے مترادف ہے، یعنی اسے محفوظ رکھنا تاکہ وقت کے ساتھ وہ ضائع نہ ہو۔ اس طرح علم کتابوں، نوٹ بکوں اور دستاویزات کی صورت میں محفوظ رہتا ہے اور ہمیں یاد دہانی کے لئے دوبارہ اسے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
علم کو باندھنے کا پیغام
“اپنے شکار کو مضبوط رسیوں سے باندھ لو” میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسے شکار کو قید کرنے کے لئے مضبوط رسیوں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح علم کو محفوظ رکھنے کے لئے قلم اور کاغذ کا سہارا لینا ضروری ہے۔ یہ علم کو بکھرنے اور ضائع ہونے سے بچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اور بزرگان دین نے اپنے علم کو قلم کے ذریعے محفوظ کیا، تاکہ آنے والی نسلیں ان کے علم سے استفادہ کر سکیں۔
علم کو محفوظ نہ کرنا بیوقوفی ہے
آخری دو اشعار میں شاعر کہتے ہیں: “یہ بے وقوفی ہوگی کہ آپ نے ایک قیمتی ہرن کا شکار کیا اور پھر اسے مخلوقات کے درمیان آزاد چھوڑ دیا۔” یہاں پر شاعر نے ایک گہری مثال دی ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک قیمتی شکار کو آزاد چھوڑ دے تو وہ باآسانی ضائع ہو جائے گا۔ اسی طرح علم بھی اگر قید یعنی محفوظ نہ کیا جائے تو وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ علم کا مطلب صرف یاداشت میں رکھنا نہیں بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانا اور لکھ کر محفوظ کرنا ہے، تاکہ وہ ہمیشہ باقی رہے اور اس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں۔
یہ اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ علم کو محفوظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ علم کو قلم کے ذریعے قید میں رکھ کر ہم نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی اسے قیمتی سرمایہ بنا سکتے ہیں۔
Featured products
بوادر النوادر (3 جلد)۔
₨ 3190.00درس قرآن ڈیلکس ایڈیشن
₨ 8290.00