لباس… ہدایات وسنتیں

مسنون زندگی قدم بہ قدم

لباس سے متعلق سنتیں

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دُنیا میں شہرت (اور دکھاوے) کے لیے کپڑا پہنے اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائیں گے۔

۔(1)۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص نیا کپڑا پہنے تو یہ دُعا پڑھے: ‘‘اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ مَا اُوَارِیْ بِہٖ عَوْرَتِیْ وَاَتَجَمَّلُ بِہٖ فِیْ حَیَاتِیْ’’ (معارف القرآن)

۔(2)۔ جس نے دُنیا میں ریشم (کا کپڑا) پہن لیا اس کو وہ آخرت میں پہننے کو نہ ملے گا۔ دوسری روایت میں فرمایا: دُنیا میں وہ شخص ریشم پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ (بخاری) البتہ تین چار اُنگل ریشم مرد کے لیے جائز ہے۔ (مسلم)۔

۔(3)۔ سفید لباس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا۔ (ترمذی)

۔(4)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قمیص (کُرتا) پسند تھا۔ (ابی داؤد)

۔(5)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کُرتے کی آستینیں ہاتھوں کے پہنچوں تک ہوتی تھیں۔ کُرتے کا گلا سینے کی طرف ہوتا تھا اور اتنا فراخ کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہاتھ ڈال کر پشت کی جانب مہر نبوت کو برکت کے لیے چھولیا تھا۔ (ابی داؤد)

۔(6)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کُرتا ٹخنوں سے اوپر نصف پنڈلی تک ہوتا تھا جبکہ مسلم کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اسی طرح ہدایت فرمائی تھی۔ (مسلم)

۔(7)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاجامہ خریدا ہے لیکن عمر بھر تہبند ہی استعمال فرمایا (ستر کو صحیح طرح ڈھانپنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاجامہ محبوب تھا)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ (اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)

۔(8)۔ کپڑا جب تک پیوند لگانے کے لائق نہ ہو جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ردّی نہ فرماتے۔ (یعنی جب تک پیوند لگاکر پہنا جاسکتا تھا، آپ زیب تن فرماتے تھے) البتہ جب اتنا بوسیدہ ہو جاتا کہ پیوند نہ لگ سکتا تو آپ اس کو ترک فرما دیتے۔ دوسری روایت میں فرمایا اگر نیا کپڑا پہننے کے بعد پرانا کپڑا نہ پہنے تو کسی غریب کو صدقہ کردے۔ (مسند احمد)

۔(9)۔ مرد کو پاجامہ، شلوار اور تہبند وغیرہ ٹخنوں سے اوپر رکھنا چاہیے۔ حدیث میں فرمایا: ٹخنوں کا جو حصہ ازار سے ڈھکا ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (بخاری)

۔(10)۔ سوتی کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ استعمال فرمایا اور قیمتی کپڑا بھی استعمال فرمایا۔ (اسوۂ رسول اکرم)

۔(11)۔ گندے کپڑوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نفرت تھی۔ ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے کپڑے میلے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اس شخص کو کوئی چیز (صابن وغیرہ) نہیں ملتی جس سے وہ اپنے کپڑوں کو دھولے۔ (ترمذی)

۔(12)۔ سر پر عمامہ باندھنا سنت ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ عمامہ باندھا کرو اس سے حلم میں بڑھ جاؤ گے۔ (اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ سیاہ رنگ کا تھا اور اس کا شملہ دونوں شانوں کے درمیان ہوتا تھا۔ (اسوۂ رسول اکرم) سفید عمامہ بھی سنت سے ثابت ہے۔ عمامہ کے نیچے ٹوپی رکھنا بھی سنت ہے۔ (ابی داؤد)
شملہ کی مقدار ایک ہاتھ سے زیادہ بھی ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ تقریباً سات گز تھا۔ (ترمذی)

۔(13)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید کپڑے کی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے جو سر کے ساتھ متصل ہوتی تھی۔ (اسوۂ رسول اکرم )

۔(14)۔ عورتوں کی چادر اتنی لمبی ہوتی تھی کہ ایک بالشت بلکہ ایک ہاتھ زمین میں گھسٹتی چلتی تھی۔ (ترمذی)

۔(15)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ دھاری دار کپڑا بھی پہنا ہے۔ (ابوداؤد)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کالی کملی (چادر) بھی اوڑھا کرتے تھے۔ (مسلم)

۔(16)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہبند کو ہمیشہ نصف پنڈلی سے اونچا رکھتے تھے۔ تہبند کا اگلا حصہ پچھلے حصہ سے قدرے نیچے ہوتا تھا۔ (خصائل نبوی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کی لنگی (تہبند) آدھی پنڈلی تک ہونا چاہیے اور اس کے نیچے ٹخنوں تک کچھ مضائقہ نہیں لیکن ٹخنوں کے نیچے جتنے حصہ پر لنگی لٹکے گی وہ آگ میں جلے گا اور جو شخص متکبرانہ کپڑے کو لٹکائے گا قیامت کے دن حق تعالیٰ شانہ اس کی طرف نظر (رحمت) نہیں فرمائیں گے۔ (بخاری)

۔(17)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے (مثلاً پینٹ وغیرہ پہنے) وہ گویا اسی قوم میں سے ہے۔ (ابو داؤد)

۔(18)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو جو باوجود مال دار ہونے کے خراب اور خستہ کپڑے پہنے ہوئے تھا نصیحت فرمائی کہ اگر اللہ نے تجھے مال دیا ہے تو اللہ کی نعمت کے اثر کو ظاہر کر اور اس نے جو تجھ کو عزت دی نمایاں کر(لیکن دکھلاوا یعنی ریا نہ ہو)۔ (ترمذی)
اور ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کو یہ بات مرغوب ہے کہ اس کی نعمتوں کا اثر اس کے بندوں پر ظاہر ہو۔ (ابو داؤد)

۔(19)۔ ایک شخص دو سرخ کپڑے پہنے ہوئے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (ترمذی)

۔(20)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص زیب و زینت کے لباس کو (باوجود وسعت کے) کسر نفسی یا تواضع کے لیے چھوڑے گا اللہ اس کو عظمت و بزرگی کا لباس پہنائیں گے اور جو شخص اللہ کے لیے نکاح کرے اللہ تعالیٰ اس کے سر پر بادشاہت کا تاج رکھیں گے۔ (ابی داؤد)

۔(21)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی چیز پہنتے ، لباس زیب تن فرماتے یا جوتیاں تو پہلے داہنی طرف سے شروع فرماتے اور جب لباس یا جوتا اُتارتے تو پہلے بائیں طرف سے شروع فرماتے۔ (بخاری)

۔(22)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کپڑے کو اس طرح لپیٹ کر نہ بیٹھے کہ دونوں ہاتھ اندر آجائیں۔ نیز اس طرح کپڑا لپیٹ کر نہ بیٹھے کہ ستر کھل جائے۔

۔(23)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حریر بہت پسند تھا ، حریر سرخ یا سبز دھاریوں کی چادر تھی۔ (بخاری)

لباس میں معمول مبارک

۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ لباس شریف میں وسعت اور ترک تکلف کی تھی…۔ مطلب یہ ہے کہ جو پاتے زیب تن فرماتے اور تعین کی تنگی اختیار نہ فرماتے اور کسی خاص قسم کی جستجو نہ فرماتے اور کسی حال میں عمدہ نفیس کی خواہش نہ فرماتے اور نہ ادنیٰ و حقیر کا خیال فرماتے جو کچھ موجود میسر ہوتا پہن لیتے اور جو لباس ضرورت کو پورا کردے اسی پر اکتفا کرتے…۔ اکثر حالتوں میں آپ کا لباس چادر اور ازار (یعنی تہبند) ہوتا…. جو کچھ سخت اور موٹے کپڑے کا ہوتا اور کبھی پشمینہ بھی پہنا ہے…. منقول ہے کہ آپ کی چادر شریف میں متعدد پیوند لگے ہوئے تھے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھا کرتے تھے اور فرماتے میں بندہ ہی ہوں اور بندوں ہی جیسا لباس پہنتا ہوں…. (شیخین نے روایت کیا ہے)
۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک مؤمن کی تمام خوبیوں میں لباس کا ستھرا رکھنا اور کم پر راضی ہونا پسند ہے…. حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میلے اور گندے کپڑوں کو مکروہ اور ناپسند جانتے تھے. (مدارج النبوۃ)
۔جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تہبند کو سامنے کی جانب لٹکاتے اور عقب میں اونچا رکھتے…. (مدارج النبوۃ)
۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تکبر وغرور کی مذمت فرماتے تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم عرض کرتے یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتیاں عمدہ ہوں اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
۔‘‘اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ’’۔ (الکبربطرالحق)
ترجمہ: ‘ـ‘بے شک اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے….’’ایک اور حدیث شریف میں ہے: ‘‘۔اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ یُحِبُّ اللَّطَافَۃَ’’۔
ترجمہ: ‘‘بے شک اللہ تعالیٰ لطیف ہے اور لطافت کو پسند کرتا ہے….’’۔
چنانچہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفود کے آنے پر ان کے لیے تجمل فرماتے اور جمعہ وعیدین کے لیے بھی آرائش فرماتے اور مستقل جدا لباس محفوظ رکھتے تھے…. (مدارج النبوۃ)
۔حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ترین لباس قمیص (کرتہ) تھا…. اگرچہ تہبند اور چادر شریف بھی بکثرت زیب تن فرماتے تھے لیکن قمیص کا پہننا زیادہ پسندیدہ تھا…. (شمائل ترمذی)
۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرہن مبارک سوتی اور تنگ دامن و آستین والا ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص مبارک میں گھنڈیاں لگی ہوئی تھیں اور قمیص مبارک میں سینہ کے مقام پر گریبان تھا اور یہی قمیص کی سنت ہے ۔(مدارج النبوۃ)
۔ایک صحابی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس حال میں دیکھا کہ میرے جسم پر کم قیمت کے کپڑے تھے تو فرمایا؟ کہ کیا تیرے پاس از قسم مال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں! اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کے مال و دولت سے نوازا ہے…. پھر فرمایا: خدا کی نعمت اور اس کی بخشش کو تمہارے جسم سے ظاہر ہونا چاہیے…۔
مطلب یہ ہے کہ تونگری کی حالت کے مناسب کپڑے پہنو اور خدا کی نعمت کا شکر ادا کرو اور ایک اُلجھے ہوئے بالوں والے پریشان حال کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ شخص کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے اپنے سر کو تسکین دے…. (یعنی بالوں کو کنگھا کرے) اور ایسے شخص کو دیکھا جس پر میلے اور غلیظ کپڑے تھے…. فرمایا: کہ یہ شخص کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے اپنے کپڑوں کو دھولے…. (یعنی صابن وغیرہ) (مدارج النبوۃ)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفید لباس پہننے کو پسند فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ حسین ترین لباس سفید کپڑوں کا ہے…. چاہیے کہ تم میں سے زندہ لوگ بھی پہنیں اور اپنے مردوں کو بھی سفید کفن دیں…. (مدارج النبوۃ …. شمائل ترمذی)
۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کالی کملی اوڑھا کرتے تھے…. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صبح کے وقت باہر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر ایک سیاہ بالوں کی چادر تھی…. (شمائل ترمذی)
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو سرمبارک پر سیاہ عمامہ تھا…. (مدارج النبوۃ)
۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پشمینہ یعنی اونی کپڑے بھی پہنے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر چادر لپیٹا کرتے تھے…. (مدارج النبوۃ)
۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں اطیب ولطیف تھے اس لیے اس کی علامت آپ کے بدن مبارک میں ظاہر تھی کہ آپ کے جسم اطہر سے لگنے کی وجہ سے آپ کے کپڑے میلے نہ ہوتے تھے اور نہ آپ کے لباس مبارک میں جوں پڑتی تھی اور نہ کپڑوں پر اور نہ آپ کے جسم اطہر پر مکھی بیٹھتی تھی …. (مدارج النبوۃ)
۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کے موزے پہنے ہیں اور ان پر مسح فرمایا ہے۔(مدارج النبوۃ)
۔لباس کے معاملہ میں سب سے بہترین طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ہے جس کا آپ نے حکم دیا ہے یا ترغیب دی یا خود اس پر مسلسل عمل فرمایا…. آپ کا طریقہ (سنت) لباس یہ ہے کہ کپاس کا بنا ہوا یا صوف کا کتان کا بنا ہوا کوئی سا بھی ہو اور جو بھی لباس میسر آئے پہن لیا جائے…. آپ نے یمنی چادریں…. جبہ…. قبا…. قمیص…۔ تہبند…. چادر (سادہ)… موزہ . جوتا.. ہر چیز استعمال فرمائی ہے…. آپ نے دھاری دار سیاہ کپڑا (سیاہ دھاری دار) اور سیاہ کپڑا بھی پہنا ہے اور سادہ کپڑا بھی پہنا ہے …۔ سیاہ لباس اور سبز ریشم کی آستین والا لبادہ بھی پہنا ہے…. (زادالمعاد)
۔پاجامہ:۔ آپ نے ایک پاجامہ بھی خریدا ہے اور ظاہر ہے کہ پہننے ہی کے لیے خریدا ہوگا اور اصحاب کرا م آپ کی اجازت سے پہنا بھی کرتے تھے…. (زادالمعاد)
۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحیح روایت میں ہے کہ انہوں نے ایک پرانا کمبل اور موٹے سوت کی ایک چادر نکالی اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کپڑوں میں رحلت فرمائی…. (زادالمعاد)
۔قمیص مبارک:۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے دمیاطی سے نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ سلم کا کُرتہ (قمیص) سوت کا بنا ہوا تھا جو زیادہ لمبا نہ تھا اور اس کی آستین بھی زیادہ لمبی نہ تھی…. بیجوری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ آپ کے پاس صرف ایک ہی کُرتہ تھا…. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کا معمول صبح کے کھانے میں سے شام کے لیے بچا کر رکھنے کا نہ تھا…. نہ شام کے کھانے میں سے صبح کے لیے بچانے کا تھا اور بعض اوقات کوئی کپڑا…. کرتہ …۔ چادر…. لنگی یا جوتہ دو عدد نہ ہوتے تھے…. مناوی نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ کا کرتہ (قمیص) زیادہ لمبا نہ ہوتا تھا نہ اس کی آستین لمبی ہوتی تھی…. دوسری حدیثوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ کا کرتہ ٹخنوں سے اونچا ہوتا تھا…. (شمائل ترمذی)
۔حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کرتہ کی آستین پہونچے تک ہوتی تھی…. (شمائل ترمذی…. خصائل نبویؐ)
۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قمیص (کرتہ) کی آستین نہ بہت تنگ رکھتے اور نہ بہت کشادہ بلکہ درمیانی ہوتی اور آستین ہاتھ کے گٹے تک رکھتے اور چوغہ وغیرہ نیچے تک مگر انگلیوں سے متجاوز نہ ہوتا تھا…. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کا کُرتہ (قمیص) وطن کے کرتے سے دامن اور آستین میں کسی قدر چھوٹا ہوتا تھا…. (زادالمعاد)
۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کا گریبان سینہ پر ہوتا تھا…. کبھی آپ اپنے کرتہ کا گریبان کھول لیا کرتے اور سینہ اطہر صا ف نظر آتا اور اسی حالت میں نماز پڑھ لیتے. (شمائل ترمذی)
۔جب آپ قمیص زیب تن فرماتے تو پہلے سیدھا ہاتھ سیدھی آستین میں ڈالتے اور پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں…. (زادالمعاد)
ایاس بن جعفر النخصی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک رومال تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تو اسی سے پونچھ لیتے…. (ابن سعد)
عمامہ کے نیچے ٹوپی رکھنا سنت ہے۔

عمامہ:۔ عمامہ کا باندھنا سنت مستحب ہے…۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کیا عمامہ باندھنا سنت ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! سنت ہے…. (عینی)
مسلم شریف اور نسائی شریف میں ہے کہ عمرو بن حرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ وہ منظر گویا اس وقت میرے سامنے ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے سیاہ عمامہ آپ کے سر مبارک پر تھا اور اس کا شملہ دونوں شانوں کے درمیان تھا…. (خصائل نبویؐ)
آپ جب عمامہ باندھتے تھے تو (شملہ) دونوں شانوں کے درمیان چھوڑ لیتے تھے اور کبھی بے شملہ عمامہ باندھتے تھے…. (نشرالطیب…. شمائل ترمذی)

تہبند اور پاجامہ

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ لنگی باندھنے کی تھی پاجامہ پہننا مختلف فیہ ہے…. بعض احادیث سے اس کا پہننا ثابت ہے اور اپنے اصحاب کو پہنے دیکھا ہے…. ایک حدیث میں ہے کہ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاجامہ پہنتے ہیں؟
تو فرمایا کہ پہنتاہوں…. مجھے بدن کے ڈھانکنے کا حکم ہے اس سے زیادہ پردہ اور چیزوں میں نہیں ہے…. (خصائل نبوی…. زاد المعاد)
آپکی تہبند چار ہاتھ اور ایک بالشت لمبی تھی اور تین ہاتھ ایک بالشت چوڑی تھی (شمائل ترمذی)
بعض احادیث میں ہے کہ چادر چار ہاتھ لمبی اور اڑھائی ہاتھ چوڑی اور تہبند چار ہاتھ اور ایک بالشت لمبی اور دو ہاتھ چوڑی…. (خصائل نبوی)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یمنی چادر کپڑوں میں زیادہ پسندیدہ تھی…. (شمائل ترمذی)
کبھی آپ چادر کو اس طرح اوڑھتے کہ چادر سیدھی بغل سے نکال کر اُلٹے کاندھے پر ڈال لیتے…. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا لباس پہنتے تو جمعہ کے دن پہنتے…۔ سفید لباس تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا ہی مگر رنگین لباس میں سبز رنگ کا لباس طبیعت پاک کو بہت زیادہ پسند تھا…. (زادالمعاد)
خالص و گہرا سرخ رنگ طبیعت پاک کو بہت زیادہ ناپسندتھا …۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیا لباس زیب تن فرماتے تو کپڑے کا نام لے کر خدا تعالیٰ کا شکر ان الفاظ میں ادا فرماتے:۔
‘‘اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا کَسَوْتَنِیْہِ اَسْئَلُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ مَاصُنِعَ لَہٗ…. (زادالمعاد)
وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَاصُنِعَ لَہٗ
ترجمہ:
(اے اللہ! تیرے ہی لیے سب تعریف ہے جیساکہ تونے یہ کپڑا مجھے پہنایا میں تجھ سے اس کی بھلائی کا اور اس چیز کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں جس کیلئے یہ بنایا گیا ہے اور میں تجھ سے اس کی برائی اور اس چیز کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے….) نیز یہ دُعاء فرماتے:
‘‘اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ مَآ اُوَارِیْ بِہٖ عَوْرَتِیْ وَاَتَجَمَّلُ بِہٖ فِیْ حَیَاتِیْ’’
ترجمہ:(سب تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جس نے مجھے کپڑا پہنایا ۔جس سے میں اپنی شرم کی چیز چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں اسکے ذریعے خوبصورتی حاصل کرتا ہوں اور جو کپڑا پرانا ہوجاتا اسے خیرات کردیتے) (زادالمعاد)
آپ اکثر اوقات سوتی لباس زیب تن فرماتے کبھی کبھی صوف اور کتان کا لباس بھی پہنا ہے ۔(زادالمعاد)
آپ چادر اوڑھنے میں بہت اہتمام فرماتے تھے کہ بدن ظاہر نہ ہو…. غالباً لیٹنے کی حالت میں یہ معمول تھا…. حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو سبز چادریں اوڑھے ہوئے دیکھا ہے…. (شمائل ترمذی)

نعلین شریف

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چپل نما یا کھڑاؤں نما جوتا پہنا کرتے تھے…. آپ نے سیاہ چرمی موزے بھی پہنے اور ان پر وضو میں مسح فرمایا ہے اور آپ کے نعلین مبارک میں انگلیوں میں پہننے کے دو تسمے تھے…۔ (ایک انگوٹھے اور سبابہ کے درمیان میں اور ایک وسطی اور اس کے پاس والی کے درمیان میں) اور ایک پشت پر کا تسمہ بھی دُہرا تھا…۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نعلین پاک ایک بالشت دو انگلیوں کے برابر لمبا تھا اور سات انگل چوڑا تھا اور دونوں تسموں کے درمیان نیچے سے دو انگل کا فاصلہ تھا…. بالوں سے صاف کیے ہوئے چمڑے کے نعلین پہنتے تھے اور وضو کرکے ان میں پاؤں بھی رکھ لیتے تھے…۔
روایت کیا اس کو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نعلین میں نماز بھی پڑھ لیتے تھے…. (کیونکہ وہ پاک ہوتے تھے اور ایسی بناوٹ کے ہوتے تھے جن میں انگلیاں زمین سے لگ جاتی تھیں) آپ نے بغیر بالوں کے چمڑے کا جوتا بھی پہنا ہے…. (مشکوٰۃ شریف)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص تم میں سے جوتا پہنے تو داہنی طرف سے ابتداء کرنا چاہیے اور جب نکالے تو بائیں پیر سے پہلے نکالے…. دایاں پاؤں جوتا پہننے میں مقدم ہونا چاہیے اور نکالنے میں مؤخر…. (شمائل ترمذی)
جوتا کبھی کھڑے ہوکر پہنتے اور کبھی بیٹھ کر…. آپ اپنا جوتااُٹھاتے تو اُلٹے ہاتھ کے انگوٹھے کے پاس والی انگلی سے اُٹھاتے…. (شمائل ترمذی)

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 108 تا 118

Written by Huzaifa Ishaq

8 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments