بچوں کی تربیت سے متعلق سنتیں

اولاد کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ اور اس کی امانت سمجھ کر اس کی قدر کی جائے۔ حسب استطاعت ان کی ضروریات کا بندوبست کیا جائے۔ ان کو بوجھ نہ سمجھا جائے بلکہ ان کی ایسی تربیت کریں کہ وہ شائستگی اور اچھے اخلاق و سیرت کے حامل ہوں۔ ایک حدیث میں ہے کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔
اس لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر صاحب اولاد کو اس کی اولاد کا یہ حق بتایا ہے کہ وہ بالکل شروع ہی سے اس کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر کرے۔
اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو قصور وار ہوگا۔ حدیث میں بھی یہی حکم ہے کہ جب بچے سات برس کے ہو جائیں تو اس وقت سے ان کو نماز کی تاکید شروع کردینی چاہیے تاکہ انہیں نماز کی عادت کم سنی ہی سے ہو جائے اور بچوں کو صحبت بھی اچھی دینا چاہیے کیونکہ بچہ ماحول اور صحبت کا اثر جلدی لیتا ہے۔ بچوں کو صحیح تربیت اور اچھی صحبت دینے کے ساتھ ساتھ ان کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعا بھی مانگتے رہنا چاہیے۔ جیسے حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے یوں دُعا مانگی تھی:۔
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً
ترجمہ:…
اے رب! عطا کر مجھ کو پاکیزہ اولاد۔ (سورہ آل عمران:38)
ایک دوسری آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جو اولاد اور بیوی کے لیے اور ان کے نیک صالح ہونے کے لیے اپنے پروردگار سے دُعائیں کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ
ترجمہ:…
یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار لوگ ایسے ہیں جو یہ دُعا کرتے ہیں کہ ہمیں بیوی بچے ایسے عطا فرما جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ (سورۃ الفرقان:74)
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہاں آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد یہ ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول دیکھے۔ (معارف القرآن)
اور اولاد و ازواج کی ظاہری صحت و عافیت اور خوشحالی بھی اس میں شامل کی جائے تو وہ بھی درست ہے۔

بچوں کی تربیت… چند ہدایات اور سنتیں

۔(1)۔ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں۔ (الترمذی) …… نیز مسلمان بچہ کا پہلا حق یہ ہے کہ پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان دی جائے اور آخری حق یہ ہے کہ اس کی وفات پر نماز جنازہ پڑھی جائے۔ اس طرح یہ بتلا دیا گیا کہ مسلمان کی زندگی اذان اور نماز کے درمیان کی زندگی ہے اور وہ زندگی بس اس طرح گزرنی چاہیے جس طرح اذان کے بعد نماز کے انتظار اور اس کی تیاری میں گزر جاتی ہے۔ (الترمذی)

۔(2)۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنے بچوں کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے خیر و برکت کی دُعا فرماتے تھے اور تحنیک فرماتے تھے…۔
فائدہ:… کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو اس عمل کو تحنیک کہتے ہیں۔
کتب حدیث میں تحنیک کے بہت سے واقعات مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب بچہ پیدا ہو تو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس لے جائیں، اس کے لیے خیر وبرکت کی دُعا بھی کرائیں اور تحنیک بھی کرائیں۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے۔ (مسلم، کتاب الادب)

۔(3)۔ صحیح بخاری میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچے کے ساتھ عقیقہ ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ جس کو بچہ عطا فرمائے وہ عقیقہ کرے) لہٰذا بچہ کی طرف سے قربانی کرو اس کا سر صاف کرادو۔
عقیقہ ساتویں روز کیا جائے۔ (ترمذی) اگر ساتویں روز نہ ہوسکے تو پھر چودھویں روز ورنہ اکیسویں روز۔
۔(4)۔ لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ عقیقہ کے جانور نر ہوں یا مادہ۔ (ابوداؤد)… اگر وسعت ہو تو دو ورنہ ایک بھی کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقیقہ کیا تو ایک ایک مینڈھا ذبح کیا۔ (ابوداؤد)
فائدہ:… احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں صورتیں ثابت ہیں۔ یعنی لڑکے کے لیے ایک بکرا بھی اور دو بھی۔ نیز عقیقہ کے جانوروں کے رنگ کی کوئی قید نہیں اور عقیقہ کے جانور کے متعلق بھی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کے متعلق ہیں۔

۔(5)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن تم اپنے آباؤ اجداد کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے۔ لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو۔ (ابوداؤد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ناموں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
وضاحت:… ان ناموں کے پسندیدہ ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ اس میں بندے کی عبدیت کا اعلان ہے اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے نام بھی پسندیدہ ناموں میں سے ہیں۔ چنانچہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا اور اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نام بھی پسندیدہ ہیں۔
اس کے علاوہ وہ نام بھی صحیح ہیں جو معنوی لحاظ سے اچھے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے یہی رہنمائی ملتی ہے کہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھے یا اپنے کسی بزرگ سے رکھوالے۔

۔(6)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ اولاد دے اس کو چاہیے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کو اچھی تربیت دے۔
پھر جب وہ سن بلوغ کو پہنچے تو اس کے نکاح کا بندوبست کرے، اگر شادی کی عمر کو پہنچ جانے پر بھی (اپنی غفلت اور بے پروائی سے) اس کی شادی کا بندوبست نہ کیا اور وہ اس کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہوگیا تو اس کا باپ (بھی) اس گناہ کا ذمہ دار ہوگا۔
افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اس بارے میں بڑی کوتاہی ہورہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دوسروں کے رسم و رواج کی تقلید میں شادی کو بے حد بوجھل بنالیا ہے۔ اگر ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں تو یہ کام اتنا آسان ہوجائے جتنا کہ فقط جمعہ کی نماز کا ادا کرنا۔ پھر نکاح و شادی میں وہ برکتیں حاصل ہوں جن سے ہم بالکل محروم ہیں۔

۔(7)۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزیں ہیں (جن کا ثواب برابر ملتا رہتا ہے)…۔
۔(1)۔ صدقہ جاریہ
۔(2)۔ وہ علم جس سے نفع اُٹھایا جاتا رہے۔
۔(3)۔ نیک صالح اولاد جو اس کے لیے دُعاگو ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)۔

۔(8)۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے صاحبزادے) ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لیا اور انہیں بوسہ دیا اور ناک لگائی۔ (بخاری)

۔(9)۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ یہ دونوں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دُنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ (بخاری)

۔(10)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس بندے یا بندی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا (اور ذمہ داری کو پورا کیا) تو یہ بیٹیاں ان کے لیے جہنم سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی۔

۔(11)۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا (جو بچی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانۂ مبارک پر سوار تھیں۔
پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، جب آپ رکوع کرتے تو انہیں آہستہ سے اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اُٹھالیتے۔ (بخاری)
حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے جن کی شادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوئی تھی۔ ان کی بیٹی کا نام امامہ تھا۔ امامہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت محبت فرماتے تھے اور امامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانوس تھی۔
ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدیہ میں ایک زریں ہار آیا، تمام ازواج مطہرات اس وقت جمع تھیں اور امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر کے گوشہ میں مٹی سے کھیل رہی تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ہار میں اپنے محبوب ترین اہل کو دوں گا، سب کا گمان تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمائیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امامہ کو بلایا اور اوّل ان کی آنکھوں کو اپنے دست مبارک سے پونچھا، پھر وہ ہار ان کے گلے میں ڈال دیا۔ (سیرۃ مصطفی حصہ سوئم بحوالہ ابن سعد)

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 103 تا 107