بچے کی ولادت اور نام رکھنا ہدایات اور سنتیں

مسنون زندگی قدم بہ قدم

نومولود بچے سے متعلق سنتیں

۔(۱)۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم برے ناموں کو بدل کر ان کی جگہ اچھے نام رکھ دیا کرتے تھے۔ (بخاری)
ایک جماعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس میں ایک شخص تھا جس کو ‘‘اصرم’’ کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا مجھ کو اصرم کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! بلکہ آج سے تمہارا نام زرعہ ہے۔ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے۔ نیز انہوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاص، عزیز، عتلہ، شیطان، حکم، غراب، حباب اور شہاب ناموں کو بدل دیا تھا۔ (ابی داؤد)
فائدہ:… اصرم:… اصرم کے معنی کاٹنے والا کترنے والا کے ہیں۔ یہ نام نامناسب تھا۔
عاص:… عاصی کا مخفف ہے اور نافرمانی پر دلالت کرتا ہے جب کہ مؤمن مسلمان کی یہ صفت نہیں ، لہٰذا عاص یا عاصہ نام نامناسب ہے۔
عزیز: … چونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم پاک ہے۔ لہٰذا عبدالعزیز نام رکھنا تو مناسب ہے لیکن صرف عزیز نام ٹھیک نہیں۔
عتلہ:… عتلہ کے معنی ہیں غلظت و شدت جب کہ مؤمن کو نرم و ملائم ہونے کے ساتھ موصوف کیا گیا ہے۔
شیطان:… شطن سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور رہنا۔
حکم:… حاکم کا مبالغہ ہے اور حقیقی حاکم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لہٰذا عبدالحکم نام تو صحیح ہے لیکن صرف حکم کہنا ٹھیک نہیں۔
غراب:… غراب کوّے کو کہتے ہیں اس کے معنی دوری کے ہیں۔
حباب:… حباب شیطان کا نام ہے اور سانپ کو بھی حباب کہتے ہیں۔
شہاب:… شہاب آگ کے شعلہ کو کہتے ہیں جو فرشتے شیطانوں پر مارتے ہیں۔ البتہ شہاب کی اضافت دین کی طرف کی جائے تو صحیح ہے جیسے شہاب الدین۔ (مظاہر حق)۔

۔(۲)۔ بعض لوگ پیار و اظہار محبت کی غرض سے اپنے بچوں کے اصلی ناموں کے علاوہ ایک اور عرفی نام رکھتے ہیں۔ مثلاً محمد اسماعیل عرف پیارو، عبدالرحمن عرف مانی، عبدالقادر عرف قادو وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔ یہ بات اس حد تک رہ جاتی تو کچھ برا نہ تھ لیکن رفتہ رفتہ یہی عرفی نام شناخت بن جاتے ہیں یہ سراسر غلط ہے اس سے احتیاط کی ضرورت ہے۔

۔(۳)۔ بعض لوگ خوب صورت اشیاء کے نام بھی بچوں کے لیے رکھتے ہیں، جیسے مشتری، ثریا، قمر، مہر، بدر، گلناز، گل بدن، شمیم، نسیم، کوثر، تسنیم وغیرہ۔ اگرچہ یہ نام برے نہیں مگر ان سے مذہبی تہذیب و اخلاق کی جھلک نظر نہیں آتی۔ البتہ ان منفرد ناموں کو مرکب کردیا جائے تو مضائقہ نہیں جیسے نسیم احمد، کوثر احمد، شمیم الدین، تسنیم الدین وغیرہ۔

۔(٤)۔ بعض لوگ اپنی اولاد کے لیے اچھے نام تو رکھتے ہیں مگر مقامی زبان میں اس کا ترجمہ کرکے پکارتے اور لکھتے ہیں جو بالکل مہمل اور غلط طریقہ ہے جیسے تامل ناڈو زبان میں شمس الدین کو کدورن کہہ کر پکارتے ہیں یا عبدالرحمن کو تامل زبان میں رگمال لکھتے ہیں، یہ بات بری بات ہے اور مذہب کی خصوصیات سے ناواقفیت کی دلیل ہے ، یہ غیراسلامی تہذیب کے اثرات کا نتیجہ ہے۔

۔(٥)۔ بعض لوگ اپنے بچوں کے وہی نام رکھ دیتے ہیں جن مہینوں میں وہ بچے پیدا ہوتے ہیں جیسے رمضان اور شعبان وغیرہ یہ طریقہ بہتر نہیں ہے۔

۔(٦)۔ بعض پڑھے لکھے سنجیدہ لوگ بھی غلط ناموں کے عادی ہوگئے ہیں جیسے عبدالنبی، عبدالحسن، عبدالحسین، عبدالمناف، عبدالکعبہ، عبدالعلی وغیرہ نام عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ اس طرح ہم لوگ شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لہٰذا عبد کا لفظ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہی کسی نام کے ساتھ رکھنا چاہیے جیسے عبداللہ، عبدالرحمن ، عبدالغفور، عبدالصبور اور عبدالحکیم وغیرہ اس کے علاوہ انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کے ناموں میں سے کوئی نام رکھنا بھی باعث خیر و برکت اور شعارِ ملت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور نام رکھنا ہو تو اپنے بزرگوں اور علماء دین سے مشورہ کرنا بہتر ہے۔

۔(۷)۔ آج کل رسم ختنہ بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہے۔ بعض مسلمان لڑکیوں کے ناک اور کان چھیدتے ہیں، بڑی دعوتیں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ یاد رکھئے! ان رسوم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

۔(۸)۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بچہ کو فطرت پر پیدا کیا ہے اور وہ فطرت اسلام ہے۔ قرآن کریم میں ہے:۔
۔‘‘فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا۔ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ۔ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘۔
ترجمہ:
… (سب) اللہ کی دی ہوئی فطرت کا اعتبار کرو جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کردہ شے کو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے بدلنا نہ چاہیے۔ پس سیدھا دین یہی ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ یعنی ہر بچہ فطرت اسلام اور اچھی عادات پر پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا والدین اس کو صحیح ماحول میں رکھ کر اس کی اصل فطرت اسلام کو مزید پروان چڑھائیں۔ خصوصاً حد بلوغت تک پہنچنے تک اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام رکھیں۔ (سورۃ الروم: ۳۰)

۔(۹)۔ بہترین اولاد وہ ہے جو اپنے والدین کی کما حقہ خدمت کرے اور ان کی وفات کے بعد ان کی مغفرت کے لیے دُعا کرتے رہیں۔ اسی طرح بہترین والدین وہ ہیں جو اپنی اولاد کو صحیح تعلیم و تربیت دیں۔

۔(۱۰)۔ بچہ کی پیدائش کے وقت والدین اور عزیز و اقارب خوش ہوتے ہیں لیکن خود بچہ روتا ہے لیکن جب یہ بچہ بڑا ہوکر اپنی آخری عمر کو پہنچے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود تو ہنستا ہوا جائے اور پیچھے رہ جانے والے اس کے لیے رو رہے ہوں۔

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 100 تا 102

Written by Huzaifa Ishaq

8 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments