اَسلاف کا اِتباعِ سنت کا ذوق واقعات کی روشنی میں

مسنون زندگی قدم بہ قدم

اتباع سنت کے دلچسپ واقعات

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہر آن اس بات کا دھیان تھا کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کس طرح ہو؟ صحابہ کرام ویسے ہی صحابہ کرام نہیں بن گئے … سنئے … ۔

:پہلا واقعہ :۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ

ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد نبوی میں خطبہ دے رہے تھے، خطبہ کے دوران آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ مسجد کے کناروں پرکھڑے ہوئے ہیں…. جیسا کہ آج کل بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کوئی تقریر یا جلسہ ہوتا ہے تو کچھ لوگ کناروں پرکھڑے ہوجاتے ہیں، وہ لوگ نہ تو بیٹھتے ہیں، اور نہ جاتے ہیں، اس طرح کناروں پر کھڑا ہونا مجلس کے ادب کے خلاف ہے، اگر تمہیں سننا ہے تو بیٹھ جاؤ، اور اگر نہیں سننا ہے تو جاؤ، اپنا راستہ دیکھو، اس لئے کہ اس طرح کھڑے ہونے سے بولنے والے کاذہن بھی تشویش میں مبتلا ہوتا ہے، اور سننے والوں کا ذہن بھی انتشار کا شکار رہتا ہے….۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کناروں پرکھڑے ہوئے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا کہ ‘‘بیٹھ جاؤ’’ جس وقت آپ نے یہ حکم دیا اس وقت حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ باہر سڑک پر تھے اور مسجد نبوی کی طرف آرہے تھے، اور ابھی مسجد میں داخل نہیں ہوئے تھے….۔
کہ اس وقت ان کے کان میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ آواز آئی کہ ‘‘بیٹھ جاؤ’’ آپ وہیں سڑک پر بیٹھ گئے، خطبہ کے بعد جب حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو بیٹھنے کا حکم ان لوگوں کودیا تھا جویہاں مسجدکے کناروں پرکھڑے ہوئے تھے، لیکن تم تو سڑک پر تھے، اور سڑک پر بیٹھنے کو تو میں نے نہیں کہا تھا، تم وہاں کیوں بیٹھ گئے؟…۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ جب حضور (اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم) کا یہ ارشاد کان میں پڑگیا کہ ‘‘بیٹھ جاؤ’’ تو پھر عبداﷲ بن مسعود کی مجال نہیں تھی کہ وہ ایک قدم آگے بڑھائے …۔
اور یہ بات نہیں تھی کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ اس بات کو جانتے نہیں تھے کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے سڑک پر بیٹھنے کا حکم نہیں دے رہے تھے، بلکہ اصل بات یہ تھی کہ جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کان میں پڑگیا کہ ‘‘بیٹھ جاؤ’’ تواب اس کے بعد قدم نہیں اٹھ سکتا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتباع کا یہ حال تھا، ویسے ہی صحابہ کرام نہیں بن گئے تھے، عشق و محبت کے دعوے دار تو بہت ہیں لیکن ان صحابہ کرام جیسا عشق کوئی لے کر تو آئے…۔

دوسرا واقعہ :۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ صلح حدیبیہ کے موقع پر معاملات طے کرنے کے لئے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایلچی بن کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ، وہاں جاکر اپنے چچازاد بھائی کے گھر ٹھہر گئے، اور جب صبح کے وقت مکہ کے سرداروں سے مذاکرات کے لئے گھر سے جانے لگے تو اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا پاجامہ ٹخنوں سے اوپر آدھی پنڈلی تک تھا، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان یہ تھا کہ ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانا تو بالکل ناجائز ہے….۔
اگر ٹخنوں سے اوپر ہو تو جائز ہے…. لیکن حضور اقدس صلی ﷲ علیہ وسلم کاعام معمول اور عادت یہ تھی کہ آپ آدھی پنڈلی تک اپنا ازار رکھتے تھے، اس سے نیچے نہیں ہوتا تھا……۔
چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے چچا زاد بھائی نے کہا کہ جناب! عربوں کا دستور یہ ہے کہ جس شخص کا ازار اور تہبند جتنا لٹکا ہوا ہو، اتنا ہی اس آدمی کو بڑا سمجھا جاتا ہے، اور سردار قسم کے لوگ اپنی ازار کو لٹکا کر رکھتے ہیں اس لئے اگر آپ اپنی ازار اس طرح اونچی پہن کر ان لوگوں کے پاس جائیں گے تو اس صورت میں ان کی نظروں میں آپ کی وقعت نہیں ہوگی، اور مذاکرات میں جان نہیں پڑے گی، حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے جب اپنے چچا زاد بھائی کی باتیں سنیں تو ایک ہی جواب دیا، فرمایا کہ:۔
نہیں میں اپنا ازار اس سے نیچا نہیں کرسکتا، میرے آقا سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ازار ایسا ہی ہے یعنی اب یہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں، یا برا سمجھیں، میری عزت کریں، یا بے عزتی کریں، جو چاہیں کریں مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں، میں تو حضوراقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ازار دیکھ چکا ہوں، اور آپ کا جیسا ازار ہے ، ویسا ہی میرا رہے گا اسے میں تبدیل نہیں کرسکتا….۔

تیسرا واقعہ :۔حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ ، فاتح ایران، جب ایران میں کسریٰ پر حملہ کیا گیا تو اس نے مذاکرات کے لئے آپ کو اپنے دربار میں بلایا، آپ وہاں تشریف لے گئے….۔جب وہاں پہنچے تو تواضع کے طور پر پہلے ان کے سامنے کھانا لاکر رکھا گیا، چنانچہ آپ نے کھانا شروع کیا، کھانے کے دوران آپ کے ہاتھ سے ایک نوالہ نیچے گرگیا……۔
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ اگر نوالہ نیچے گر جائے تو اس کو ضائع نہ کرو وہ اﷲ کا رزق ہے، اور یہ معلوم نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے رزق کے کونسے حصے میں برکت رکھی ہے، اس لئے اس نوالے کی ناقدری نہ کرو، بلکہ اس کو اٹھالو، اگر اس کے اوپر کچھ مٹی لگ گئی ہے تو اسکو صاف کرلو، اور پھر کھالو……۔
چنانچہ جب نوالہ نیچے گرا تو حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ کو یہ حدیث یاد آگئی اور آپ نے اس نوالے کو اٹھانے کے لئے نیچے ہاتھ بڑھایا، آپ کے برابر ایک صاحب بیٹھے تھے انہوں نے آپ کو کہنی مار کر اشارہ کیا کہ یہ کیا کررہے ہو…. یہ تو دنیا کی سپر طاقت کسریٰ کا دربار ہے، اگر تم اس دربار میں زمین پر گرا ہوا نوالہ اٹھا کر کھاؤ گے تو ان لوگوں کے ذہنوں میں تمہاری وقعت نہیں رہے گی اور یہ سمجھیں گے کہ یہ بڑے ندیدہ قسم کے لوگ ہیں، اس لئے یہ نوالہ اٹھا کر کھانے کا موقع نہیں ہے، آج اس کو چھوڑ دو….۔
جواب میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ نے کیا عجیب جملہ ارشاد فرمایا کہ:۔
أَأَتْرُکُ سُنَّۃَ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِہٰؤُلَآءِ الْحُمْقٰی؟
کیا میں ان احمقوں کی وجہ سے سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت چھوڑ دوں؟ چاہے یہ اچھا سمجھیں ، یا برا سمجھیں، عزت کریں، یا ذلت کریں، یا مذاق اڑائیں، لیکن میں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت نہیں چھوڑ سکتا….۔

چوتھا واقعہ :۔حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کا اتباعِ سنت

آپ نے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا یہ واقعہ سنا ہوگا کہ ان کے آخری لمحات حیات میں ایک نوجوان ان کی عیادت کے لئے آیا ، واپس جانے لگا تو حضرت نے فرمایا برخوردار تمہاری چادر ٹخنوں سے نیچی ہے ،
اور یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے…..۔
ان کے صاحبزادے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے اپنانے کا اس قدر شوق تھا کہ جب حج پر تشریف لے جاتے تو جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے سفر حج میں پڑاؤ کیا تھا وہاں اترتے جس درخت کے نیچے آرام فرمایا تھا اس درخت کے نیچے آرام کرتے، اور جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فطری ضرورت کے لئے اُترے تھے، خواہ تقاضا نہ ہوتا تب بھی وہاں اُترتے، اور جس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بیٹھے تھے اس کی نقل اتارتے…. رضی اﷲ عنہم….۔
یہی عاشقانِ رسول تھے (صلی اﷲ علیہ وسلم) جن کے قدم قدم سے آنحضرت صلیٰ ﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ صرف اوراق کتب کی زینت نہیں رہی بلکہ جیتی جاگتی زندگی میں جلوہ گر ہوئی، اور اس کو بوئے عنبرین نے مشام عالم کو معطر کیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ بہت سے ایسے ممالک میں پہنچے جن کی زبان نہیں جانتے تھے….۔
نہ وہ ان کی لغت سے آشنا تھے مگر ان کی شکل و صورت، اخلاق و کردار اور اعمال و معاملات کو دیکھ کر علاقوں کے علاقے اسلام کے حلقہ بگوش اور جمال محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام بے دام بن گئے یہ سیرت نبوی کی کشش تھی جس کا پیغام ہر مسلمان اپنے عمل سے دیتا تھا…. رضی اللہ عنہم ….(راہ جنت)

پانچو اں واقعہ :۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ابو داؤد اور ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور سلطنت روم کے درمیان جنگ بندی کا ایک معاہدہ ہوا…. حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صلح کی مدت کے دوران ہی فوجوں کو سرحد کی طرف روانہ کرنا شروع کر دیا…. مقصد یہ تھا کہ جونہی صلح کی مدت ختم ہو گی فوراً حملہ کر دیا جائے گا رومی حکام اس خیال میں ہوں گے کہ ابھی تو مدت ختم ہوئی ہے….
اتنی جلدی مسلمانوں کا ہم تک پہنچنا ممکن نہیں، اس لئے وہ حملہ کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے اور اس طرح فتح آسان ہو جائے گی…. چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جیسے ہی مدت پوری ہوئی آپ نے فوراً پوری قوت سے رومیوں پر یلغار کر دی….۔ ظاہر ہے کہ رومی اس ناگہانی حملے کی تاب نہ لا سکے اور پسپا ہونے لگے…. عین اسی حالت میں جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا لشکر فتح کی اُمنگیں دل میں لئے آگے بڑھ رہا تھا….۔
پیچھے سے ایک شہسوار آتا دکھائی دیا جو پکار پکار کر یہ کہہ رہا تھا کہ ‘‘اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وفاء لا غدر ’’(اللہ اکبر اللہ اکبر مومن کا شیوہ وفا ہے غدر و خیانت نہیں) یہ شہسوار قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں…. حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے میں یہ چیز غدر و خیانت نہیں تھی…. کیونکہ حملہ جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد ہو رہا تھا….۔
لیکن حضرت عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا…. ‘‘میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کا کسی قوم سے کوئی معاہدہ ہو تو وہ اس عہد کو نہ کھولے نہ باندھے (یعنی اس کے خلاف کوئی حرکت نہ کرے) تاوقتیکہ یا اس معاہدے کی مدت گزر جائے یا کھلم کھلا معاہدے کے اختتام کا اعلان کر دیا جائے….’’۔
حضرت عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ اس حدیث کی رو سے جنگ بندی کے دوران جس طرح حملہ کرنا ناجائز ہے اسی طرح دشمن کے خلاف فوجیں لے کر روانہ ہونا بھی جائز نہیں…. حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کیلئے وہ مرحلہ کس قدر نازک تھا اس کا اندازہ بھی شاید ہم آپ اس وقت نہ کر سکیں…. حضرت عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ کی نصیحت اور مطالبہ پر عمل کرنے سے بظاہر ان کی ساری اسکیم فیل ہو رہی تھی ان کا وہ منصوبہ پیوند زمین ہو رہا تھا جو انہوں نے نہ جانے کب سے سوچ رکھا ہو گا…. ساری فوج کے مشقت آمیز سفر کی محنت اکارت جا رہی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لشکر کی فتح کی امنگیں مجروح ہو رہی تھیں…. لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سننے کے بعد ان تمام مصلحتوں کو قربان کر کے لشکر کو فوراً واپسی کا حکم دے دیا….۔ ۔(۔مشکوٰۃ المصابیح….باب الایمان۔)۔
اس وقت نہ کوئی حکمت و مصلحت آڑے آئی…. نہ ارشاد نبویؐ میں کسی تاویل کا کوئی خیال آیا، بلکہ انہوں نے اپنے اس عظیم اقدام کو فوراً واپس لے لیا اور مفتوحہ علاقہ تک دشمن کے حوالے کر دیا….۔

چھٹا واقعہ :۔ حضرت مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضرت مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں…. مکہ مکرمہ میں اسلام سے پہلے عناق نامی ایک عورت سے ان کے تعلقات تھے…. ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی کام سے مکہ مکرمہ بھیجا وہاں عناق ان سے ملی اور حسب سابق اپنے تعلقات جتائے لیکن حضرت مرثد رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ: ‘‘اسلام میرے اور تمہارے درمیان حائل ہو چکا ہے’’…. اس پر عناق نے ان سے نکاح کی درخواست کی لیکن حضرت مرثد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ‘‘ میں نکاح پر راضی ہوں لیکن جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ نہ کر لوں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا….’’چنانچہ مدینہ منورہ پہنچ کر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا اس پر یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ:۔
وَلاَ تَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ یعنی مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں) چنانچہ حضرت مرثد رضی اللہ عنہ نے اس امر الٰہی کے سامنے سرجھکا کر نکاح کا ارادہ ترک کر دیا…. (تفسیر مظہری ۲۵۵ جلد ۱)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سیرت طیبہ کی اتباع اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا کی نقل اتارنے کا اس قدر شوق اور اتباع سنت کا اس قدر اہتمام تھا کہ وہ اس معاملہ میں غیروں کے استہزاء سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے بلکہ مخالف سے مخالف ماحول میں اپنی وضع اور اپنے طرز زندگی پر ثابت قدم رہے….

ساتواں واقعہ :۔ حضرت جثامہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت جثامہ بن مساحق رضی اللہ عنہ کو ہر قل بادشاہ روم کے پاس ایلچی بنا کر بھیجا…. وہ ہر قل کے دربار میں پہنچے تو ان کے اکرام…۔ کیلئے ہرقل نے انہیں سونے کی ایک کرسی پر بٹھایا حضرت جثامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں شروع میں بے خیالی کے عالم میں اس کرسی پر بیٹھ گیا…. لیکن جب احساس ہوا کہ یہ سونے کی کرسی ہے تو اس سے فوراً اتر کر کھڑا ہو گیا…. ہرقل نے میرے اس عمل پر ہنس کر پوچھا کہ ہم نے تو اس کرسی کے ذریعہ تمہارا اکرام کیا تھا…. تم اتر کیوں گئے؟ میں نے جواب میں کہا:
‘‘میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جیسی (سونے کی چیز) پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے….’’ (کنز العمال)۔

آٹھواں واقعہ :۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اتباع سنت

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک شاگرد رشید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بازار تشریف لے گئے…. میں بھی ساتھ تھا…. پورے بازار میں گھومے…. جو بھی ملتا رہا اسے سلام کرتے رہے…. نہ کوئی چیز خریدی نہ فروخت کی اور نہ کسی چیز کا بھاؤ معلوم کیا اور نہ کسی دکان پر رکے…. میں نے واپسی پر پوچھا: حضرت! آپ بازار تشریف لے گئے تھے لیکن ویسے ہی واپس آ گئے؟ فرمایا: ہم اس لئے گئے تھے کہ وہاں مسلمان ملیں گے…. انہیں سلام کریں گے…. یہ سنت پر عمل کرنے کا جذبہ اور شوق ہے….۔
واقعہ۔آدمی کو جب کسی سے محبت ہو جاتی ہے اور اس محبت میں خلوص ہوتا ہے تو آدمی صرف اس محبوب کی قدر نہیں کرتا ، بلکہ اس محبوب کے چاہنے والوں کی بھی عزت و احترام کرتا ہے۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سچی محبت تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی ان کا سرمایہ زندگی تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں جن کی قدر تھی ان کا بھی بڑا لحاظ تھا۔
انہی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان میں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں کچھ بات بڑھ گئی جس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو کوئی سخت لفظ کہہ دیا جو ان کو ناگوار گزرا، ساتھ ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کا احساس ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ تم بھی مجھے ویسا ہی لفظ کہہ لو تاکہ بدلہ ہو جائے، مگر حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ یہ ابو بکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ہیں۔
عرض کیا: نہیں میں ایسا لفظ نہیں کہہ سکتا، اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہہ لو ورنہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری شکایت کروں گا۔ اس پر بھی انہوں نے کوئی لفظ کہنے سے انکار کیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس کی طرف چل پڑے، اس پر حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو اسلم کے کچھ لوگوں نے کہا یہ بھی اچھی بات ہے کہ خود ہی زیادتی کرے اور خود ہی شکایت کرے۔
اس کے جواب میں حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جانتے بھی ہو یہ کون ہیں؟ یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اگر یہ ناراض ہو گئے تو اللہ کا لاڈلا رسول مجھ سے ناراض ہو جائے گا اور اس کی ناراضگی سے اللہ جل شانہ ناراض ہو جائیں گے۔ (حکایاتِ صحابہ)
غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کے خیال سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کوئی کلمہ نہ کہا جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں تمہیں کچھ نہیں کہنا چاہئے تھا البتہ اس کے بدلہ میں یوں کہہ دو کے اے ابو بکر اللہ تمہیں معاف فرما دیں۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت ہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک دنیا میں موجود رہے مدینہ منورہ ہی میں ان کا قیام رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے لئے مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا تو اپنے قبیلے میں چلے گئے اور 63 ھ میں وفات پائی۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ (ضرب مومن)

نواں واقعہ:۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا داعیہ یہاں تک تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اونٹ پر سوار ہوئے ٗ سفر میں جانے کے لئے آپ نے چند کلمات پڑھے سُبْحَانَ اللّٰہِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ اَللّٰہُ اَکْبَرْ…. اونٹ کو قمچی ماری ٗ ہنسے ٗ کسی نے پوچھا یہ کیوں کیا ؟ فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا کہ اسی طرح اونٹ پر سوار ہوئے تھے ٗ اسی طرح یہ کلمات پڑھے…. اسی طرح اونٹ کو قمچی ماری اورہنسے…. اتنی اتنی باتوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرتے تھے….۔

دسواں واقعہ :۔لشکر ِصحابہ کا واقعہ

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ایک مرتبہ اونٹوں پر سوارتھی ٗ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود ٗ تشریف لے جارہے ہیں…. سرخ چادریں یمنی اونٹوں پر پڑی ہوئی ہیں اور ایک عجیب منظر تھا خوشنما…. حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگوں کی طبیعتیں سرخی کی طرف مائل ہوتی جارہی ہیں…. بس فوراً سے کودے….۔
اونٹوں سے چادروں کو پھاڑ پھاڑ کرختم کیا …. جو چیز آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہو اس کو رکھنے کے لئے تیارنہیں….یہ تھا اطاعت کا مادہ….۔

گیارہواں واقعہ :۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جبّہ پہن کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے…. ریشمی جبّہ تھا…. حضرت نے فرمایا ریشم تو مرد کے لئے ناجائز ہے…. اُٹھے جبّے کو اُتارا…. سامنے تنور تھا روٹی پکانے کا …. جا کے تنور میں ڈالا جبّے کو آگ میں….۔
دوسرے وقت حاضر ہوئے…. حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس جبّے کا کیا ہوا؟ عرض کیا حضرت میں نے اس کو جلا دیا…. حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں تمہارے لئے ہی تو ناجائز تھا….
بچیوں کے لئے کپڑے بنوا دیتے….ان کے لئے درست تھا، لیکن بھائی جس شخص کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جمی ہوئی ہے ہر چیز کی محبت پر غالب ہے…. جب وہ دیکھتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ لباس ناپسند ہے وہ تویہ سوچتا بھی نہیں کہ کسی اورکام آسکتا ہے کہ نہیں…. وہ تو یہ سمجھے گا کہ وہ چیز آگ میں جلانے کے قابل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہے….۔

۔12۔ نمبر واقعہ ترکِ سنت پر تنبیہ کا واقعہ

حضرت حکیم الامۃ مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی صاحب اپنے ملفوظات میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے بزرگان سلف کے تذکرے دیکھے ہیں ان کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان کی حالت اور طرز وہ نہ تھا جو آج کل کے اکثر مشائخ کا ہے….۔
ان مشائخ کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اتباع شریعت کو وصول الیٰ اللہ کے لئے چنداں ضروری نہیں سمجھتے اور ان کا اعتقاد ہے کہ شریعت اور ہے طریقت اور ہے…. بلکہ بزرگان سلف کا حال تقویٰ طہارت اور اتباع سنت میں صحابہ کا سا تھا….۔
چنانچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا قصہ لکھا ہے کہ ایک بار آپ وضو کرنے میں انگلیوں کا خلال کرنا بھول گئے تو غیب سے آواز آئی کہ محبت رسول کا دعویٰ اور سنت کا ترک؟ آپ نے فوراً توبہ کی کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا…. اور لکھا ہے کہ آپ کی یہ حالت تھی کہ جہاں آپ آگ کو دیکھتے تو کانپ اٹھتے کہ کہیں قیامت کے روز اس کی سزا نہ ہو …. تو اتباع سنت میں ان حضرات کا وہی حال تھا جو حضرات صحابہ کا تھا.. (تاریخ مشائخ چشت)

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 77 تا 86

Written by Huzaifa Ishaq

6 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments