سنت کی اہمیت اور فضیلت

سنتوں میں بعض مؤکدہ ہیں اور بعض سنن زوائد… عبدیت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں کی پیروی کو اپنی سعادت سمجھے چاہے وہ عمل شرع میں جس درجہ کا بھی ہو… تاہم فرق مراتب کا لحاظ ضرور پیش نظر رہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت ہی مہربان ہیں…۔
بالخصوص اُمت محمدیہ کے افراد پر اللہ تعالیٰ کی شفقت و عنایت دیگر اُمتوں سے کئی گنا بڑھ کر ہے…۔
اسی شفقت کی بناء پر دین میں فرائض و واجبات کی فہرست بہت مختصر ہے…۔
مثلاً ایک مسلمان کیلئے ارکانِ اسلام چار ہیں …جن کا درجہ فرض کا ہے …یعنی نماز… روزہ… حج… زکوٰۃ اور واجبات کی تعداد بھی
مختصر ہے… مثلاً وتر… صدقہ فطر… قربانی… نذر و منت کا پورا کرناوغیرہ … اب اسکے بعد اگلا درجہ سنتوں کا ہے
سنت مؤکدہ کی ادائیگی کا اہتمام تو بے حد ضروری ہے… البتہ سنت زوائد و سنن عادیہ جن کو عرف عام میں اتباع سنت کہتے ہیں… اُن کا تو مطلوب ہے… لیکن ان سنن کے ترک پر ملامت اور وعید نہیں۔

سُنت کی اہمیت

اتباع سنت کے تحت جو شخص سنن عادیہ (یعنی جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور عادت مبارک کے کئے ہوں … جیسے عمامہ … عصا وغیرہ کی سنتیں ہیں ) ان کا بھی اہتمام کرتا ہے ….وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے… اتباع سنت کی برکت سے اس کے سارے صغیرہ گناہ بھی معاف کردیئے جاتے ہیں…۔
احادیث شریفہ اقوال صحابہ اور بزرگوں کے ارشادات میں اِتباع سنت کی جتنی اہمیت بیان کی گئی ہے … اُس سے یہی معلوم ہوتا ہے …کہ انسانیت کی معراج ….اتباع سنت میں ہے۔
ایک انسان کی سعادت یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اقوال و افعال و احوال میں جہاں تک ہوسکے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری پیروی کرے… کیونکہ چھوٹی سے چھوٹی سنت پر عمل کرنا بڑے بڑے نیک اعمال سے بڑھ کر ہے… ایک چھوٹی سی چھوٹی سنت کی قیمت ساتوں زمین و آسمان سے زیادہ ہے…۔
شرعی درجہ بندی کی بنا پر سنت کا درجہ اگرچہ فرض و واجب کا نہیں… لیکن سنتوں کا اہتمام عین سعادت اور خوش بختی کی علامت ہے اور قرب الٰہی کا مؤثر ترین ذریعہ ہے…۔
قطب العالم حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ تیس برس مجاہدہ کے بعد فقیری و درویشی کی حقیقت معلوم ہوئی…۔
صرف اتباع سنت کا نام ہی فقیری و درویشی ہے۔
اصلاح طلب پہلو دیگر بے اعتدالیوں کی طرح اتباع سنت کے معاملہ میں بھی افراط و تفریط پایا جاتا ہے… کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ جوسنت عادیہ میں اتباع سنت کو ضروری ہی نہیں سمجھتے … نہ پوشاک میں سنت کا اہتمام…۔
نہ خوراک میں، نہ نشست و برخاست میں… بلکہ پوری زندگی میں سنتوں کا کہیں بھی اہتمام نظر نہیں آتا… یہود و نصاریٰ کے طور و طرز کو اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے…۔
سنتوں کو یہ کہہ کر ترک کردیتے ہیں کہ یہ ہیں تو سنتیں… فرض و واجب تو نہیں…۔
حالانکہ ہمارے حضرت ڈاکٹر مولانا عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ سنن و مستحبات بھی اختیار کرنے کیلئے ہوتے ہیں ترک کرنے کیلئے نہیں ہیں… شریعت نے ان کی ترغیب بلاوجہ نہیں دی…۔
اسی طرح حضرت مولانا شاہ یعقوب مجددی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب کوئی شخص کہتا کہ یہ سنت ہی تو ہے …حضرت فرماتے ہاں یہ عمل تو سنت ہے …لیکن تمہارا یہ لہجہ کفر ہے کہ تمہارا یہ انداز سنت کی تحقیر اور ناقدری کا ہے
ایک بزرگ کا ارشاد ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب معلوم ہوتا کہ اچھا یہ عمل سنت ہے تو جان فدا کردیتے اور تم لوگ یہ کہہ کر کہ سنت ہی تو ہے اس کو چھوڑ دیتے ہو…دوسری طرف کچھ لوگ اتباع سنت میں غلو کا شکار ہو جاتے ہیں اور ترک سنت پر شدید ملامت کرنے لگ جاتے ہیں…۔
ہمارے جاننے والے ایک دیندار ساتھی تھے…۔
وہ اکثر اس بات پر لوگوں سے نالاں رہتے کہ یہ لوگ وضو گھر سے کیوں نہیں کرکے آتے اور مساجد کے وضو خانے پر بھی معترض ہوتے… اگرچہ گھر سے وضو کرکے آنا مسنون باعث اجر اور بے انتہا ثواب کا باعث ہے…۔
لیکن لوگوں کو اس وجہ سے ملامت کرنا یہ بھی نامناسب انداز ہے… کیونکہ گھر سے وضو کرکے آنا سنت ہے فرض و واجب تو نہیں…۔
ایسے ہی بعض لوگ امام مساجد پر معترض ہوتے ہیں کہ بغیر پگڑی کے نماز کیوں پڑھاتے ہیں …حالانکہ پگڑی کا استعمال نماز کا کوئی رُکن نہیں ہے …بلکہ اس کا درجہ سنت کا ہے… اور یہ سنت عادیہ میں سے ہے جس کے ترک پر نکیر کرنا جائز نہیں ہے۔
اس لئے امام کو عمامہ کے بغیر امامت کرانے پر ملامت کرنا نامناسب ہے… ہاں ترغیب دی جاسکتی ہے… سنتوں کو بلاوجہ چھوڑنا سعادت سے محرومی ہے …۔
راہِ اعتدال متذکرہ بالا وضاحت کے بعد یہ ہے کہ تمام سنتوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرنا مطلوب بھی ہے اور محبوب بھی… سنتوں کا ترک باعث حرمان اور اخروی سعادتوں سے محرومی کا سبب ہے …۔
لیکن شرعی درجہ بندی کے تحت چونکہ سنت کا درجہ فرض و واجب کے بعد کا ہے… تو سنتوں کے ترک پر شدید ملامت اور لوگوں پر اعتراض کرنا بھی نامناسب ہے۔
تنبیہ :۔ ہاں یہ بات بھی ضرور پیش نظر رہے کہ یہ ساری گفتگو سنن عادیہ سے متعلق ہے… کسی سنت کے چھوڑنے پر اگرچہ شدید ملامت مناسب نہیں لیکن اگر اُس سنت کے ترک سے کسی رسم و رواج کو ترجیح ہوتی ہو یا کسی بدعات میں ابتلا ہوتا ہو تو وہاں اتباع سنت کا اہتمام ہر حال میں لازم اور شرعاً و عقلاً ضروری ہوگا…۔
وہاں اُس حکم کو محض سنت کہہ کر ترک کرنا جائز نہیں ہوگا… جیسے شادی… خوشی… غمی کی تقریبات میں رسم و رواج کو ترجیح دے کر سنتوں کو چھوڑنا کسی طرح مناسب نہیں…اسی طرح ڈاڑھی اور تراویح کا درجہ سنت مُؤکَّدَہ کا ہے …۔
جس پر عمل واجب ہے لیکن علماء کا اجماع اور اُمت کے اہتمام سے یہ سنتیں ضروری ہیں…جن پر عمل کرنا امت کیلئے لازم ہے۔
حاصل تحریر :۔یہ ہے کہ سنتوں کو شرعی درجہ بندی کے تحت فرض و واجب کا درجہ نہ دیا جائے اور نہ ہی سنتوں کے ترک پر ترک فرض و واجب جیسی نکیر کی جائے… لیکن جہاں تک عمل کی بات ہے تو تمام سنتوں پر عمل اہتمام اور پابندی کے ساتھ ہو… جیسے صوفیاء کرام تہجد پڑھنے کا اہتمام عملاً تو مثل فرض و واجب کے کرتے ہیں…۔
لیکن تہجد کو شرعی درجہ بندی کے تحت صرف سنت سمجھتے ہیں… فرض و واجب نہیں سمجھتے… سنن زوائد سے متعلق یہی طرزِ عمل اور نقطۂ نظر راہِ اعتدال ہے۔

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 67 تا 70