سنت کی زندگی

مسنون زندگی قدم بہ قدم

اتباع سنت کی فضیلت و اہمیت

۔1۔ وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا…. (الحشر:7)
۔‘‘اور جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں…. اس سے باز رہو۔’’….۔
۔‘‘دینا’’ کئی طریقے سے ہوتا تھا…. کبھی ہاتھ سے اٹھا کر کوئی چیز دے دی …. روپیہ پیسہ دے دیا…. کبھی زبان سے کوئی حکم یا ہدایت دے دی کہ فلاں کام کرو…. فلاں نہ کرو…. فلاں جگہ چلے جاؤ…. بیویوں کے حقوق ادا کرو…. رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو وغیرہ وغیرہ…. خلاصہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی دیں…. اسے لے لیا کرو یعنی اسے قبول کرو…. اگر مال و دولت ہے تو اسے نعمت سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں تمہیں دلوائی ہے…. کوئی ہدایت اور رہنمائی ہے تو اسے زندگی بھر کے لئے اپنے لئے مشعل راہ بناؤ…. اور جس چیز سے روکیں…. اس سے رک جاؤ یعنی جس جس گناہ سے بھی آپ روک دیں …. اس کی خلاف ورزی نہ کرو….۔
2۔وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم….4)
۔‘‘اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں…. یہ تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔’’….۔
یعنی دینی معاملات میں آپ جو کچھ فرماتے ہیں…. وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی کے مطابق ہوتا ہے…. اس کے خلاف نہیں ہوتا مثلاً فلاں چیز جائز ہے…. فلاں ناجائز ہے…. فلاں فرض ہے…. فلاں واجب ہے…. فلاں عمل کا اتنا ثواب ہے وغیرہ….۔ یہ دین کی باتیں ہیں…. ان میں سے کوئی بات آپ اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ وہ وحی ہوتی ہے جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے البتہ یہاں دنیا کے معاملات مراد نہیں مثلاً کسی کو مشورہ وغیرہ د ے دیا یا کوئی اور بات کہہ دی وغیرہ تو وہ یہاں مراد نہیں…. اس تفصیل سے بھی یہی معلوم ہوا کہ آپ کی ہدایات اور احکام کی پیروی فرض و واجب ہے….۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ (آل عمران:31)
‘‘(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو…. خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا او رتمہارے گناہ معاف کر دے گا’’….۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے…. اس پر لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرے…. اگر وہ آپ کی پیروی نہیں کر رہا تواس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ میں اللہ سے محبت کرتا ہوں…. اور آپ کی پیروی یہی ہے کہ آپ نے جس کام کے کرنے کا حکم دیا…. اسے کرو اور جس سے منع کیا …. اس سے باز آ جاؤ….۔
اللہ جل شانہ کا پاک ارشاد ہے
‘‘قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی امت سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو…. اللہ تعالیٰ تمہیں محبوب بنالے گا’’….۔
تفسیر دُرمنثور میں کثرت سے روایات ذکر کی گئی ہیں کہ بہت سے لوگوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے محبت ہے…. اس پر یہ آیت نازل ہوئی…. اللہ جل شانہٗ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کو اپنی محبت کیلئے علامت قرار دیا….۔
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ
‘‘تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس دین کے تابع نہ بن جائیں جو میں لے کر آیا ہوں’’….۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ اسی آیت کی تفسیر میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ میرا اتباع کرو نیک کاموں میں تقویٰ میں…. تواضع میں اور اپنے نفس کو ذلیل سمجھنے میں….۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت اتباع سُنت ہے….۔
مشکوٰۃ میں مقدام ابن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے…. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:۔
‘‘مجھے قرآن دیا گیا ہے اور قرآن ہی کے برابر دوسری چیزیں (یعنی سُنت)…. قریب ہے کہ کوئی آدمی پیٹ بھرا اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے یہ کہے کہ تم لوگ صرف قرآن ہی کو لو…. جو اس میں حلال پاؤ اس کو حلال سمجھو اور جو حرام پاؤ اس کو حرام سمجھو’’…. حالانکہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام فرمایا ہے ۔
وہ ویسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے (یعنی جس چیز کی حرمت یا حلت حدیث سے ثابت ہو وہ ایسے ہی ہے جیسے قرآن سے ثابت ہو) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘‘پیٹ بھرا’’ کا لفظ اس وجہ سے ارشاد فرمایا کہ اس قسم کی خرافات جب ہی سوجھتیں ہیں جب لذائذ میں آدمی ہو…. فقر و فاقہ اور تنگ دستی میں یہ حماقتیں نہیں سوجھتیں۔
دوسری حدیث پاک میں عرباض ابن ساریہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مضمون نقل کیا گیا ہے…. اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ‘‘تم میں سے کوئی شخص اپنے گاؤ تکیہ پر کمر لگائے یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بجز اس کے جو قرآن پاک میں ہے حرام نہیں کی…. خبردار! خدا کی قسم میں نے بھی کچھ چیزوں کا حکم دیا ہے اور نصیحت کی ہے اور بہت سی چیزوں سے روکا ہے…. وہ بھی قرآن کے مقدار میں ہے بلکہ زیادہ ہی ہے’’….۔
اس حدیث میں ‘‘گاؤ تکیہ پر کمر لگانے’’ کا مطلب وہی ہے جو پہلی میں ‘‘پیٹ بھرے’’ کا تھا کہ ایسی حماقتیں ثروت ہی میں سوجھتی ہیں…. ان صفات کے ذکر کرنے سے مطلب یہ ہے کہ یہ لغویات جب ہی سوجھتی ہیں جب تنعم بہت بڑھ گیا ہو جیسا کہ متکبرین کی عادت ہے جن کا دین کے معاملات میں اہتمام بہت کم ہوتا ہے…. اپنے گھر کے عیش و آرام میں پڑے رہتے ہیں…. علم کے سیکھنے سکھانے سے بے بہرہ ہوتے ہیں….۔

سُنّت کو لازم پکڑو

حضرت عرباض رضی اللہ عنہ ہی سے ایک اور حدیث نقل کی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز پڑھائی…. پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر بڑا بلیغ وعظ فرمایا کہ جس سے آنکھیں بہہ پڑیں…. قلوب دہل گئے….۔
ایک آدمی نے کہا ‘‘یا رسول اللہ! یہ تو جیسے رخصتی وعظ ہو…. لہٰذا کوئی نصیحت ہمیں فرمائیے’’…. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘ میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور دین میں نئی باتوں سے بچو…. کیونکہ ہر نئی چیز بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے’’….۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے کہ جس نے میری کسی ایک سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا اجر ملے گا جتنا عمل کرنے والوں کو ملے گا اور ان کے اجروں میں کوئی کمی نہ ہو گی…. اور جو کوئی دین میں نئی چیز پیدا کرے جو اللہ اور اس کے رسول کو ناپسند ہے تو اس کو عمل کرنیوالوں کے برابر گناہ ملے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی…. نیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہے…. جو جماعت سے نکلے گا جہنم میں جائے گا….۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے کہ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے گویا مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا….۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا ہے کہ جو کوئی میری سنت پر عمل کرے میری امت کے فساد کے وقت تو اس کو سو شہیدوں کا اجر ملے گا…. نیز ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری اتباع بغیر چارہ نہ ہوتا….۔
مؤطاء امام مالک میں حدیث مرسل نقل کی گئی ہے کہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں…. جب تک ان کو مضبوط پکڑے رہو گے گمراہ نہ ہو گے کتاب اللہ اور سنت….۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
‘‘جو کسی بدعتی کی تعظیم کرے تو اس نے گویا اسلام کے منہدم کرنے پر اعانت کی’’
یہ چند احادیث مشکوٰۃ شریف سے اتباع سنت کے اہتمام میں نقل کی ہیں….۔

سنت کی مثال

امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ہمارے اکابر فرمایا کرتے تھے کہ سنت کو پختہ پکڑنا نجات ہے…. اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ سنت مثل کشتی نوح علیہ السلام کے ہے…. جو اس میں بیٹھ گیا وہ بچ گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا…. (العبودیہ ص 74)

معیار ولایت اتباعِ سنت ہے

اصل چیز اتباع سنت ہے…. اور جس کو پرکھنا ہو اسی معیار پر پرکھا جائے گا جو شخص اتباع سنت کا جتنا زیادہ اہتمام کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب و مقرب ہو گا…. روشن دماغی چاہے اس کے پاس کو بھی نہ آئی ہو…. اورجو شخص اتباع سنت سے جتنا دورہے اللہ تعالیٰ سے بھی اتنا ہی دور ہے چاہے وہ مفکر اسلام مفکر دنیا مفکر سموات بن جائے….۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فتاوی میں فرمایا ہے کہ اولیاء اللہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت کو مضبوطی سے پکڑیں…. ان میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ جو اس کے دل میں آئے اس پر بغیر کتاب و سنت کی موافقت کے عمل کرے…. اور یہ قاعدۂ کلیہ جس پر جملہ اولیاء اللہ متفق ہیں…. جو اس کے خلاف کرے وہ اولیاء اللہ میں سے نہیں ہو گا…. بلکہ یا تو کافر ہو گا یا جاہل…. اور یہ بات مشائخ کے کلام میں کثرت سے پائی جاتی ہے….۔
چنانچہ شیخ ابو سلیمان دارانی فرماتے ہیں کہ میرے قلب میں بعض صوفیانہ رموز وارد ہوتے ہیں مگر میں انہیں بغیر دو گواہ (کتاب و سنت) کے قبول نہیں کرتا…. اور حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارا یہ علم (تصوف) قرآن اور سنت کے ساتھ مربوط ہے…. جس نے قرآن و حدیث نہ پڑھا ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ ہمارے علوم میں کلام کرے….۔
حضرت ابو عثمان نیشاپوری فرماتے ہیں کہ جس نے سنت کو اپنے قول و فعل میں حاکم بنالیا اس کا کلام حکمت ہو گا اور جس نے خواہشات نفس کو حاکم بنایا وہ بدعت میں مبتلا ہو گا…. اس لئے کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے ….۔
وَاِنْ تُطِیْعُوْہُ تَھْتَدُوْا (یعنی رسول کا اتباع کرو گے تو ہدایت پاؤ گے)
اور ابن نجید فرماتے ہیں ‘‘ہر وہ حال جس پر کتاب و سنت کی شہادت نہ ہو وہ باطل ہے’’…. دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں کہ عمل جب تک خالص اور صواب نہ ہو قابل قبول نہیں…. خالص کا تو مطلب یہ ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور صواب کا مطلب یہ ہے کہ سنت کے موافق ہو…. حضرت ابو سلیمان دارانیؒ نے فرمایا کہ جس کے دل میں کوئی خیر کی بات آئے اسے اس وقت تک اس پر عمل نہیں کرنا چاہئے جب تک کہ اس کے لئے کوئی اثر نہ مل جائے…. اس سلسلہ میں جب کوئی اثر سن لے تو نور علے نور ہے…. حضرت سہل تستریؒ کا ارشاد ہے کہ ‘‘ہر وہ عمل جو بدعت پر ہو گا وہ نفس پر عذاب ہے…. اور جو عمل اکابر کی اقتداء کے بغیر ہو گا وہ نفس کا دھوکا ہے’’….۔
اس بارے میں بہت کثرت سے اقوال شیخ الاسلامؒ نے بھی نقل کئے ہیں اور دوسرے حضرات نے بھی کہ جو عمل اتباع سنت کے بغیر ہو گا وہ گمراہی ہے۔ (اکابر دیو بند اتباع شریعت کی روشنی میں)

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سنت کیلئے تاکیدات

۔1۔ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہما حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس نے میرے بعد میری کسی مِٹی ہوئی سنت کو زندہ کیا تو جتنے لوگ اس سنت پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اسے اجر ملے گا اور اس سے ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہی کا کوئی ایسا طریقہ ایجاد کیا جس سے اللہ اور اس کے رسول کبھی راضی نہیں ہو سکتے تو جتنے لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اسے گناہ ہو گا اور اس سے ان لوگوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ (ترمذی)
۔2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اے میرے بیٹے! اگر تم ہر وقت اپنے دل کی یہ کیفیت بنا سکتے ہو کہ اس میں کسی کے بارے میں ذرا بھی کھوٹ نہ ہو تو ضرور ایسا کرو پھر آپ نے فرمایا اے میرے بیٹے! یہ میری سنت میں سے ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ (ترمذی)
۔3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری امت کے بگڑنے کے وقت جس نے میری سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ یہ روایت بیہقی کی ہے اور طبرانی میں یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ اسے ایک شہید کا ثواب ملے گا۔ (الترغیب)
۔4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری امت کے بگڑنے کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھامنے والے کو ایک شہید کا اجر ملیگا (طبرانی)
۔5۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری امت کے اختلاف کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھامنے والا ہاتھ میں چنگاری لینے والے کی طرح ہو گا۔ (کنز العمال)
۔6۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ (سجزی)
۔7۔ ابن اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ والے دن بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بات جائز نہیں ہے کہ مسلمانوں کے دو امیر ہوں۔ کیونکہ جب بھی ایسا ہو گا مسلمانوں کے تمام کاموں اور تمام احکام میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور ان کا شیرازہ بکھر جائے گا اور ان کا آپس میں جھگڑا ہو جائے گا اور پھر سنت چھوٹ جائے گی اور بدعت غالب آ جائے گی اور بڑا فتنہ ظاہر ہو گا اور کوئی بھی اسے ٹھیک نہ کر سکے گا۔ (اخرجہ البیہقی ۱۴۵/۸)
۔8۔ حضرت تمیم بن سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملک شام پہنچے تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے ان کا استقبال کیا اور ان سے مصافحہ کیا اور ان کے ہاتھ کا بوسہ لیا پھر دونوں (حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے کو یاد کر کے) تنہائی میں بیٹھ کر رونے لگے ۔ حضرت تمیم فرمایا کرتے تھے کہ (بڑوں کے) ہاتھ چومنا سنت ہے ۔ (اخرجہ عبدالرزاق والخرائطی)
۔9۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ وہ کل اللہ کی بارگاہ میں امن کے ساتھ حاضر ہو وہ ان پانچوں نمازوں کو ایسی جگہ ادا کرے جہاں اذان ہوتی ہے اس لئے کہ یہ کام ایسی سنتوں میں سے ہے جو سراسر ہدایت ہیں اور اسے تمہارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سنت قرار دیا ہے اور کوئی یہ نہ کہے کہ میرے گھر میں نماز کی جگہ ہے میں اس میں نماز پڑھا کروں گا کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو تم اپنے نبی کی سنت کو چھوڑنے والے ہو جاؤ گے اور اگر تم اپنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ (اخرجہ ابو نعیم فی الحلیۃ 235/1)
۔10۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم لوگ (اللہ والے) صحیح راستہ اور سنت کو لازم پکڑ لو کیونکہ روئے زمین پر جو بندہ بھی صحیح راستہ اور سنت پر ہو گا پھر وہ اللہ کا ذکر کرے گا اور اس کے ڈر سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے تو اسے اللہ تعالیٰ ہرگز عذاب نہیں دیں گے اور روئے زمین پر جو بندہ بھی صحیح راستہ اور سنت پر ہو گا وہ اپنے دل میں اللہ کو یاد کرے گا اور اللہ کے ڈر سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے تو اس کی مثال اس درخت جیسی ہو جائے گی۔جس کے پتے سوکھ گئے ہوں اور تیز ہوا چلنے سے اس کے پتے بہت زیادہ گرنے لگیں تو ایسے ہی اس کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ گرانے لگ جائیں گے اس لئے تم دیکھ لو چاہے تم زیادہ محنت کرو چاہے درمیانی رفتار سے چلو لیکن تمہارا ہر عمل انبیاء علیہم السلام کے طریقے اور سنت کے مطابق ہونا چاہئے ۔ (اخرجہ اللالکائی فی السنۃ کذافی الکنز 97/10)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضہ

حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے خطبات میں فرماتے ہیں۔
‘‘حدیث میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ‘‘من احبّنی فقد اطاعنی و من اطاعنی کان معی فی الجنۃ’’ جس نے مجھ سے محبت کی بے شک اس نے میری اتباع کی اور جس نے میری اتباع کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا….۔
اس سے معلوم ہوا کہ محبت کا ثمرہ لازمی اطاعت ہے…. اگر اطاعت اور اتباع سنت نہیں ہے تو دعوائے محبت باطل ہے نیز عاشق دعویٰ نہیں کرتا عاشق تو عمل کرتا ہے….۔
عشق کی اولین منزل ترک دعویٰ یعنی فنائیت محض ہے اور جو مدعی بنا ہوا ہے تو مدعی اپنی بقاء کا قائل ہے اس میں فنائیت کہاں؟
اس لئے اگر کوئی عاشق رسول ہے تو اس کی علامت یہ ہے کہ دعویٰ نہ ہو کہ میں عاشق رسول ہوں بلکہ نادم ہو کہ جتنا عشق کرنا چاہئے تھا وہ نہیں کر سکا’’….(جواہرحکمت )

سنت کا مفہوم اور اس کی اہمیت

لفظ ‘‘سنت’’ آپ کثرت سے سنتے ہیں…. اس کا مفہوم ذرا تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے…. لفظ ‘‘سنت’’ کے لغوی معنی ہیں ‘‘طریقہ’’…. جب یوں کہا جائے کہ ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت’’ تو اس کا مطلب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ…. کس چیز میں طریقہ؟ پوری زندگی کے اعمال میں زندگی کے تمام شعبوں میں….۔
شریعت کی اصطلاح میں لفظ ‘‘سنت’’ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے…. نماز اور وضو وغیرہ میں آپ پڑھتے ہیں کہ نماز میں اتنی سنتیں اور وضو میں اتنی سنتیں ہیں اور اتنے فرض…. اتنے واجبات اور شرائط ہیں…. اس جگہ سنت سے مراد ہوتا ہے ‘‘واجب سے کم درجے کے اعمال’’…. لیکن آج ہم جس باب کا آغاز کر رہے ہیں…. اس جگہ سنت کے یہ معنی مراد نہیں بلکہ دوسرے معنی مراد ہیں…. نہ صرف یہاں بلکہ عام طور پر قرآن و سنت کی اصطلاحات میں جب لفظ ‘‘سنت’’ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ہوتا ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ…. خواہ وہ فرض ہو یا واجب…. سنت مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ…. آداب میں سے ہو یا شرائط میں سے…. یہ سب سنت کے اصطلاحی مفہوم میں داخل ہیں…. مثلاً ایمان لانا تو سب سے بڑا فرض ہے …. جس کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا…. وہ بھی سنت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے…. اسی طرح ہم نماز ادا کرتے ہیں مثلاً صبح کو دو فرض…. ظہر میں چار فرض…. عصر میں چار فرض…. مغرب میں تین اور عشاء میں چار فرض پڑھتے ہیں….۔
یہ پانچ نمازیں بھی سنت ہیں حالانکہ فرض ہیں لیکن اس اعتبار سے سنت ہیں کہ یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے…. اس معنی کے اعتبار سے زکوٰۃ بھی سنت ہے اور روزہ بھی …. حج بھی سنت ہے اور ایمان بھی اور کلمۂ توحید و شہادت کہنا بھی سنت ہے…. غرضیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و افعال جو احادیث میں بیان کئے گئے ہیں…. وہ سب کے سب سنت ہیں کیونکہ وہ آپ کا طریقہ ہیں…. البتہ پھر حکم کے اعتبار سے کوئی فرض ہے اور کوئی واجب…. کوئی سنت ہے اور کوئی مستحب….۔
اسی سے یہ بھی سمجھ لیجئے کہ پاکستان کے آئین میں جو یہ عبارت درج ہے کہ اس ملک کا کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائیگا…. اس سے مراد بھی یہی دوسرے معنی ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال سے جو کچھ ثابت ہے…. اسکے خلاف قانون نہیں بنایا جائیگا….۔

غلط فہمی کی وجہ

عام طور پر سنت کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یہ واجب نہیں…. یہ بہت بڑا مغالطہ ہے اور یہ مغالطہ اس وجہ سے لگتا ہے کہ جب نماز وغیرہ میں فرائض اور سنتوں کو گنوایا جاتا ہے تو اس وقت سنت سے مراد ‘‘واجب سے کم درجے کا عمل’’ ہوتا ہے….۔
تو اس مغالطہ کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جب بھی اور جہاں بھی سنت کا لفظ بولا جائے گا…. تو اس سے واجب سے کم درجے کا عمل مراد ہو گا….۔

ڈاڑھی رکھنا سنت سے ثابت اور عملاً واجب ہے

اسی سے یہ بھی سمجھ لیجئے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک مشت کے برابر داڑھی رکھناا ور جب تک مشت بھر سے بڑھ نہ جائے…. اسے نہ کاٹنا ‘‘سنت’’ ہے تو عام طور پر لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ واجب نہیں…. یہ سمجھنا بالکل غلط ہے…. داڑھی رکھنا واجب ہے…. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بار بار حکم دیا ہے اور تاکید سے حکم دیا ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کا حکم دیں تو وہ فرض اور واجب ہوتی ہے…. لہٰذا داڑھی رکھنا اس معنی میں تو سنت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ واجب نہیں…. خوب سمجھ لیجئے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے…. اس لئے یہ واجب ہے…. اس کا کٹوانا گناہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے….۔

سنت کا وسیع مفہوم

مذکورہ تفصیل کے بعد اب ہم اس باب کی تشریح بیان کرتے ہیں…. آج ہم اس باب کا آغاز کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پابندی لازم ہے…. آپ کی سنت کی پیروی ضروری ہے…. پیروی کے مختلف درجات ہیں…. کہیں یہ پیروی فرائض میں ہو گی تو کہیں واجبات میں…. کہیں سنن میں ہو گی تو کہیں مستحبات میں…. کہیں شرائط میں ہو گی تو کہیں آداب میں…. مثلاً یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو رکعتیں جماعت کے ساتھ پڑھیں اور انہیں فرض قرار دیا تو ہم بھی انہیں فرض کہیں گے…. یہ سنت بھی ہیں اس لئے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور اس پر عمل کر کے دکھلایا ہے اور چونکہ اسے فرض کہا ہے اس لئے یہ فرض ہیں…. اور فجر کی نماز سے پہلے جو دو سنتیں ہیں…. انہیں آپ نے فرض نہیں کہا…. اس لئے ہم بھی انہیں فرض نہیں کہتے…. البتہ یہ سنت ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہیں….۔
بعض سنتیں فرض و واجب یا سنت نہیں بلکہ مستحب ہیں مثلاً جوتا پہننے کا طریقہ جو سنت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب جوتا پہنیں تو دائیں پاؤں میں پہلے پہنیں…. بائیں میں بعد میں پہنیں…. ایسا کرنا ضروری نہیں لہٰذا اگر اس کے برخلاف کرو گے تو گناہ نہیں ہو گا لیکن اگر اس کے مطابق کرو گے تو ثواب ملے گا…. یہ مستحب عمل ہے لیکن اسے سنت بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اسی طرح تھا….۔
اس باب میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یعنی آپ کے طریقے کی پابندی کرنا ضروری ہے….۔

اتباعِ سنت کے دو فوائد

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کے دو نتائج اور فوائد ظاہر ہوں گے….۔
۔1۔ یحببکم اﷲ (اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا)…. یہ ایک عجیب بات ہے…. عام قاعدہ یہ ہے کہ آپ کسی سے محبت کریں تو آپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرے…. چنانچہ اگر ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں تو ہمارے دل میں بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے محبت کرنے لگے اور اس سے بڑھ کر ہمارے لئے سعادت کی اور کیا بات ہو گی کہ خود اللہ تعالیٰ ہم سے محبت کریں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بنا دیا کہ تم جتنی محبت کرنا چاہو…. کرو لیکن تمہاری محبت اس وقت معتبر ہو گی جب تم میرے رسول کی پیروی کرو گے…. جب تم میرے رسول کا اتباع کر لو گے تو میں محبت کا جواب محبت سے دوں گا اور اگر میرے رسول کی پیروی نہ کی تو میری طرف سے محبت کا جواب محبت سے نہیں ملے گا….۔
۔2۔ ویغفرلکم ذنوبکم (اور تمہارے گناہوں کو بخش دیگا) معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے سے جس طرح انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے…. اسی طرح اگر اس سے گناہ ہو بھی جائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دیتے ہیں….۔

عمل صالح کی بنیادیں

حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
‘‘عمل صالح کی دو بنیادیں ہیں…. ایک اخلاص للہ اور دوسرا اتباع سنت…. اخلاص للہ کو کلمہ کا پہلا جز بیان کر رہا ہے…. وہ یہ ہے لا الٰہ الا اللہ اور اسی کلمہ کا دوسرا جز محمد رسول اللہ سے اتباع سنت نکلتا ہے اسی لئے طریق صواب وہی ہے جس کو سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کر کے دکھا دیا ہے یا جو آپ کے متبعین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعامل ہے…. اس کا حاصل یہ نکلا کہ جس عمل میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ شامل ہو گا…. وہی عمل صالح ہوگا….’’(جواہرحکمت )

اتباع سنت کی خاصیت

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اتباع سنت کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں محبوبیت ہے اور محبوبیت کا خاصہ ہے کہ جب انسان اتباع سنت کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں…. قرآن مجید میں ہے ‘‘اَﷲُ یَجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَیَھْدِیْ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ’’…. (آیت نمبر ۱۳ سورۂ شوریٰ)
اللہ تعالیٰ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اس شخص کو جو اللہ تعالیٰ سے رجوع کرے….۔
چنانچہ حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں اتباع سنت میں محبوبیت کی خاصیت ہے اور اس کی خاصیت کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص بھی اتباع سنت کے راستے پر چلے گا اللہ تعالیٰ خود اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا ہمارے بزرگ فرماتے ہیں اتنے لمبے مجاہدات اور ریاضتیں کیسے کرو گے؟ البتہ ایک کام یہ کر لو کہ اپنی زندگی کو اتباع سنت کے سانچے میں ڈھال لو گویا تمہاری صبح سے لے کر شام تک کی زندگی نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی میں بسر ہونی چاہیے…. (معارف الاکابر)

اتباع سنت کچھ مشکل نہیں

اتباع سنت کے یہ معنی ہیں کہ زندگی کے ہر کام کو اس طریقہ سے انجام دینا جو طریقہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا اور جس پر عمل کر کے دکھایا ہے…. یہ ہے اتباع سنت….۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ز ندگی کے ہر شعبہ میں سنت پر عمل پیرا ہونا یہ بھی تو بڑا مشکل کام ہے…. ہمارے حضرات نے اس کا بھی آسان طریقہ تجویز کر دیا اب کوئی آدمی کرنا ہی نہ چاہے تو وہ بات الگ ہے لیکن طریقہ تو ہمارے بزرگوں نے بتا دیا کہ ایک ہی دن میں اور ایک ہی رات میں ساری سنتوں کو تم شائد نہ کر پاؤ لیکن اس راستے کی طرف چلنا شروع کرو…. (سچی محبت اور اس کی علامات)

اتباع سنت تمام نیکیوں کی کنجی ہے

مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ساری نیکیاں ایک مکان میں جمع کر دیں اور اس کی کنجی اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے…. اب اتباع کیا ہے متابعت کرو قناعت میں…. حرص میں نہ پڑو…. رزق کی زیادہ فکر نہ کرو…. دنیا بقدر ضرورت بھی آپ نے جمع نہ کی…. تم بقدر ضرورت تو جمع کر لو لیکن ضرورت سے زیادہ جمع نہ کرو…. بھیک بھی مانگنا نہ پڑے اور فضولیات میں بھی نہ پڑ جاؤ یہ عام مسلمانوں کو حکم ہے کسی کو کچھ دو تو کچھ روک کر بھی رکھو…. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کا ایک تہائی سے بھی کم قبول کیا…. باقی واپس کر دیا اور ایک شخص کو بالکل واپس کر دیا جو اپنا سارے کا سارا لایا تھا اس سے خفگی بھی ظاہر کی یہ تو عام معمول تھا اور اپنے لئے اور خاص صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے خصوصیت تھی کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سارا مال قبول کر لیا…. ان کے درجات اور ہیں…. غرض اعتدال سے جمع کرنے کا حکم ہے…. آج دل کو پکڑتے پھرتے ہیں…. کھانا ہضم نہیں ہوتا مگر دنیا کی زیب و زینت حاصل کرنے کا روگ ہو گیا ہے بغیر فرنیچر کے چین نہیں آتا….۔
فضول باتوں…. فضول مجلسوں…. فضول کاموں…. فضول کھانے…. غرض ہر فضولیات سے بچو جہاں چار آدمی بیٹھتے ہیں غیبت اور لایعنی ہوتا ہے…. یہ بڑا عذاب ہے قوم کے متقی لوگ بھی اس سے نہیں بچتے…. (مجالس مفتی اعظم)

ہماری حقیقی عزت اتباع سنت میں ہے

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اپنے ایک مقالہ میں فرماتے ہیں….۔
بحمداﷲ ہم سب کا اس بات پر ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں جو پُرامن اسلامی انقلاب برپا کیا…. وہ صرف اس طرح رونما ہو سکا کہ لوگوں نے عبادات و اخلاق سے لے کر معاملات و معاشرت تک ہر شعبہ زندگی میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت کی پیروی کا اہتمام کیا…. اسی طرح اس پر بھی ہم سب کا اتفاق ہے کہ ہمارے تابناک ماضی میں ہمیں جو عزت و کرامت اور ترقی و خوشحالی نصیب ہوئی اسے دوبارہ واپس لانے کا واحد طریقہ بھی یہی ہے کہ ہم ایک بار پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی طرف رجوع کر کے اس کا حقیقی اتباع کریں….۔
یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اس ایمان و اعتقاد کا کوئی پھل کیوں نہیں مل رہا؟ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی ایمان و اعتقاد کی بدولت عزت و کرامت کے بام عروج تک پہنچ گئے تھے، جب ہم اس موضوع کا مطالعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دراصل اس حقیقت پر ان کا یہ ایمان محض عقلی یا نظریاتی ایمان نہیں تھا بلکہ وہ ایک ایسا طبعی ایمان تھا جس کی جڑیں ان کے دلوں میں مستحکم تھیں…. اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ان کی گہری عقیدت و محبت اس ایمان کی آبیاری کرتی رہتی تھی…. چنانچہ معیشت و معاشرت….۔
سیرت و اخلاق…. عبادات و معاملات…. یہاں تک کہ شکل و صورت اور لباس و وضع تک زندگی کے ہر شعبے میں انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے سوا کوئی اور طریقہ بھاتا ہی نہیں تھا…. ان کے اتباع سنت کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اس معاملے میں نہ کبھی کسی کی ملامت کی پروا کی…. نہ کسی تردیدو تنقید کو خاطر میں لائے…. اور نہ کبھی غیروں کے تمسخر و استہزاء کا کوئی اثر قبول کیا…. انہوں نے کبھی غیر مسلموں کو خوش کرنے یا ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی چھوٹی سے چھوٹی سنت کو بھی چھوڑنا گوارا نہیں کیا….۔
لہٰذا اگر ہم واقعۃً یہ چاہتے ہیں کہ اس عزت و کرامت اور اس عروج و ترقی کے مستحق بنیں جو قرون اولیٰ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اتباع سنت کی برکت سے حاصل ہوا تو پھر یہ ناگریز ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اسی طرح کریں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کر کے دکھائی تھی….۔
اس اتباع میں نہ کسی تحریف و تاویل کا کوئی شائبہ ہو…. نہ خواہشات نفس کو راضی کرنے کا اور نہ غیروں کے استہزاء کا خوف…. اس لئے کہ خدا کی قسم! ہمارے لئے نہ یہ سر بفلک عمارتیں سرمایہ عزت ہو سکتی ہیں…. نہ یہ عالیشان محلات اور زرق برق لباس سامان افتخار بن سکتا ہے…. ہمارے لئے عزت ہے تو صرف نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھیک ٹھیک پیروی میں ہے جو ایک دن کھاتا اور ایک دن بھوکا رہتا تھا….۔
جو چٹائی پر سویا کرتا تھا…. جو اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودتا تھا…. اور جو تعمیر مسجد کے لئے اپنے مبارک ہاتھوں سے اینٹیں ڈھونے کی خدمت انجام دیتا تھا…. جب تک ہم اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں اپنے آپ کو پوری طرح رنگنے کی کوشش نہیں کریں گے…. اس وقت تک ہمیں کوئی عزت اور کوئی سرفرازی حاصل نہیں ہو سکتی…. (جہاں دیدہ)

….۔1۔ سنت مؤکدہ کا مفہوم

وہ عمل جس کو رسول یا صحابہ رضی اللہ عنہم نے دین جان کر پسند کیا اور ہمیشہ پابندی سے کیا اگر مجبور ہوں تو البتہ چھوڑ دیا…. (تاکہ فرق رہے اپنے عمل میں اور خدا کے حکم میں) اس کا حکم یہ ہے کہ
۔1۔ اس کا مُنکر فاسق گناہگار…. اس کی اہانت و مضحکہ و مذاق اڑانے والا کافر، اس کا تارک گنہگار فاسق…. جو شفاعت رسول سے محروم رہے گا….۔
۔2۔ عُذر کے وقت چھوڑنا گناہ نہیں …. بلکہ فرض اور سنت میں فرق ہے….۔
۳۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ جس کو اس کا پابند دیکھیں اس کو متبع سنت صالح مسلمان سمجھیں اور اس سے دوستی رکھیں اور جس کو اس کا پابند نہ پائیں اس کو نرمی سے تنہائی میں یاد دلائیں اور بتائیں…. زجر نہ کریں…. جیسے دن بھر میں ۱۲ رکعت….۔

…. ۔2۔ سنت غیر مؤکدہ کا مفہوم

وہ عمل جس کو رسول یا صحابہ رضی اللہ عنہم رسول نے اپنی طبیعت یا عادت سے پسند کر کے اکثر کیا اور بغیر کسی عُذر کے خود ہی چھوڑ بھی دیا ہو اسی کو سنت زائدہ اور سنت عادیہ بھی کہتے ہیں جیسے عصر کی سنت….۔

…. ۔3۔ مستحب کا مفہوم

اسی کو مستحسن، مندوب اور نفل بھی کہتے ہیں) وہ نیک عمل جو رسول اور اصحاب رضی اللہ عنہم کے کسی عمل کی نقل اور اسی کے مشابہ تو ہو…. خواہ اگر رسول اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہو یا نہ ہو اس کا حکم یہ ہے….۔
۱۔ ان کے کرنے میں ثواب ہے اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی کا حکم رسول نے دیا ہے تو گویا یہ عمل رسول اور خدا کے حکم کے ماتحت ہی ہے…. اس لئے ثواب ملے گا…. مگر نہ کرنے میں عذاب نہیں کیونکہ رسول نے ایسی سنت پر نہ پابندی کی نہ حکم دیا…. البتہ محبت رسول کا تقاضا ہے کہ ان کو کیا جائے….۔
۔2۔ شریعت میں ان سب پر پابندی بھی اسی طرح مطلوب ہے کہ کرو بھی اور چھوڑ بھی دو…. اور لطف یہ کہ یہ ناغہ (قولہ یہ ناغہ کرنا الخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے ناغہ فرماتے تھے تاکہ امت پر واجب نہ ہو جائے امتی ضروری سمجھے بغیر دوام اختیار کرے تو یہ استقامت ہے جو نہایت پسندیدہ عمل ہے…. حدیث شریف میں ہے احب الاعمال الی اﷲ ادومھا وان قل کرنا بھی دوام ہی سمجھا جائے گا کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس طرح اس پر دوام کیا تھا….۔
۔3۔ مسلمان نہ خود اس پر سخت (قولہ سخت پابندی کریں الخ یعنی ضروری نہ سمجھیں اگر پابندی سے کرتے رہیں تو ثواب ہے) پابندی کریں کہ فرض سے ملا دیں اور نہ ان کی تبلیغ میں تشدد ہو جیسے مُردہ نہلا کر خود نہانا….۔

…. ۔4۔ مکروہ تنزیہی کا مفہوم

وہ عمل جو رسول یا صحابہ رضی اللہ عنہم کو ناپسند رہا ہو اس کا حکم یہ کہ
۔1۔ اس کے نہ کرنے (قولہ نہ کرنے میں ثواب ہے الخ یعنی نہ کرنا کرنے سے بہتر ہے)…. رہا ثواب یہ اسوقت ہو گا جب اس کام کے اسباب ہوں اور پھر نہ کرے (کمافی التوضیح) میں تو ثواب ہے کیونکہ رسول نے اپنی طبیعت اور عادت شریفہ سے اس کو پسند نہیں کیا لیکن اگر کوئی کرے تو عذاب بھی نہیں البتہ محبت رسول کے خلاف ہے….۔
۔2۔ اس کا درجہ مستحب و سنت غیر مؤکدہ کے مقابل ہے جیسے چھینک کا جواب (قولہ جیسے چھینک کا جواب نہ دینا الخ چھینک لینے والا جب الحمدﷲ کہے تو اس کو جواب دینا یعنی یرحمک اللہ کہنا واجب ہے البتہ چھینک لینے والے کو الحمدﷲ کہنا مستحب ہے) نہ دینا….۔
(انتباہ) خوب یاد رکھنا چاہئے کہ تقلید اور نقل کرنے کے لئے مسلمان کے سامنے یا رسول ہیں کیونکہ قرآن نے کہا ہے کہ آپ کے عمل میں مسلمانوں کے لئے نمونہ ہے…. اور یا پھر صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں کیونکہ رسول ہی نے فرمایا ہے
۔‘‘میرا طریقہ اور میرے خلفاء راشدین کا طریقہ اختیار کرو….’’۔
یا عام صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں کیونکہ رسول ہی نے فرمایا ہے ‘‘میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ستارے ہیں جس کی بھی اقتداء کرو گے ٹھیک راستہ پر رہو گے….’’ یا آخری درجہ میں تبع تابعین کے دور تک کے صلحاء ہیں…. کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا ہے کہ…. ‘‘خیریت کا زمانہ یا میرا اور میرے صحابہ کا زمانہ ہے’’ یا ان کا جو صحابہ کے بعد ہوں (تابعین) یا پھر ان کا جو تابعین کے بعد ہوں (تبع تابعین)’’ پس مسلمانوں سے عین محبت رسول کا یہ مطالبہ ہے کہ اپنے عمل کے لئے نمونہ بنانے میں…. اتباع میں…. اقتداء میں تقلید میں اپنے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکھیں…. یا خلفاء راشدین کو یا صحابہ رضی اللہ عنہم کو یا تابعین کو اور پھر تبع تابعین کو اور بس اس کے بعد خیریت کا زمانہ حسب فرمان رسول ختم ہو چکا…. اس کے بعد کے کسی ولی کو نمونہ ہرگز نہ بنائیں اس میں راز یہ ہے کہ ممکن ہے ان کے افعال غلبہ حال میں ہوں جو ان کے لئے مخصوص ہوں اور وہ حکم عام اور علاج عام نہیں بن سکتے…۔

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 49 تا 66

Written by Huzaifa Ishaq

6 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments