تحریک ختم نبوت کا مختصر تعارف

Ishq k Qaidi

عقیدۂ ختم نبوت کو اسلام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ چودہ سو سال سے مسلمان بالا تفاق سید نامحمد ﷺ کواللہ کا آخری نبی اور رسول مانتے آۓ ہیں ۔ ختم نبوت کے متعلق قرآن واحادیث کی تصریحات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا جھوٹے مدعیان نبوت سے جنگ کرنا اس امر کا شاہد ہے کہ اس بنیادی عقیدے سے انکار ، انحراف یا اس کی من چاہی تاویل دراصل اسلام کے بنیادی عقائد سے روگردانی ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ “خاتم النبیین ” کی نرالی تفسیر دریافت کی کہ نبی ﷺ (معاذ اللہ ) سلسلہ انبیاء کی مہر تصدیقی ہیں ، اور حضور ﷺ کے بعداب جو بھی نبی آۓ گا ۔ وہ آپ ﷺ کی مہر سے تصدیق شدہ ہوگا ۔ اس طرح نبوت کا ایک خودساختہ دروازہ کھول کر نہ صرف اس نے اپنی نبوت کا دعوی کر دیا بلکہ ہر اس شخص کو بھی کافر قرار دے دیا، جو اس کی خود ساختہ نبوت کا منکر ہے، چنانچہ قادیانی جماعت مرزا کو من وعن نبی تسلیم کرتے ہوۓ ہندوستان بھر میں اپنے باطل افکار کی نشر و اشاعت میں مصروف ہوگئی ۔اہل فرنگ کی اس فتنہ گری کے خلاف علمائے حق کی پرامن مزاحمت ” تحریک ختم نبوت” کہلاتی ہے۔

یہ تحر یک اب تک تین نازک ادوار سے گزرچکی ہے ۔ پہلا دور انیسویں صدی کی آخری دہائی سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک تھا، جب مناظروں ، مباہلوں ، دلائل اور منطق سے اس فتنے کا پیچھا کیا گیا۔ 1908ء میں لاہور کی احمد یہ بلڈنگ میں مرزا قادیانی کی عبرتناک موت کے بعد قیاس یہی تھا کہ اس فتنے کی ڈھول اب بیٹھ جاۓ گی لیکن انگریز نے میں تھی بہت سوچ کے الجھائی تھی، چنانچہ دور غلامی میں یہ  فتنہ اندر ہی اندر پروان چڑھتارہا۔

عالمی جنگوں کے بعد علمائے برصغیر ترک خلافت کے بکھرے تار پور سمیٹنے میں مصروف ہوۓ تو مرزائی جدت پسندی کی چادر اوڑھ کر انگریز کے کاسہ لیس بن گئے ۔مسلمانوں کے کوٹہ پر سرکاری ملازمتوں کا حصول اور اعلی انتظامی عہدوں پر قبضے کے بعد وہ ایک الگ مذہبی ریاست یا صوبے کے خواب دیکھنے لگے۔ تقسیم ہند کے وقت ان کی نظر لا الہ الا اللہ کے نام پر قائم ہونے والی اس ریاست پرتھی ، چنانچہ وہ اپنا متبرک شہر قادیان چھوڑ کر یہاں آ گئے ۔ مہاجرین کی آبادکاری اور دیگر مسائل میں الجھی ہوئی نومولود ریاست کو مرزائیت کی ریشہ دوانیوں کا نہ تو شعور تھا اور نہ ہی کوئی دلچسپی۔

قائداعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسند اقتدار پر مذہب بیزار مغرب پسند اشرافیہ مسندنشین ہوئی تو ریاستی مشینری پر قادیانیت غالب آ چکی تھی ، چنانچہ پاک فوج کے متوازی قادیانی’الفرقان بر یگیڈ‘ کا قیام ، وزارت خارجہ میں سرظفر اللہ قادیانی کی پھرتیاں ، چک ڈھگیاں عرف ربوہ میں’دار الخلافت کا قیام ،مسلح رضا کاروں کی پریڈ ، اسلحے کے انبار ، پاکستان کو مسیح موعود کی سرز مین بنانے کے دعوے تبلیغ کے لئے سرکاری مشینری کا وسیع استعمال ، سادہ لوح عوام کو ملازمت ، گھر اور شادی کا لالچ دے کر مرتد بنانے کی مہم ، بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنانے کے ارادے اور مرکزی کابینہ کے وزراء کو ربوہ (چناب نگر ) کی سیر کرا کے روشن پاکستان کے خواب دکھانے سے اس طائفے کے عزائم کھل کر سامنے آنے لگے۔

ان حالات میں تحریک ختم نبوت کا دوسرا اور سب سے کڑا مرحلہ شروع ہوا۔1951ء سے لے کر 1953 ء تک جاری رہنے والی اس تحریک میں تحفظ ختم نبوت کی جنگ مجلس احرار اسلام کی میز بانی میں جمعیت علماء اسلام ، جمعیت علماء پاکستان ، جماعت اسلامی ، جمعیت اہلحدیث ، پیر صاحب آف سیال شریف ، پیر صاحب آف گولڑہ شریف ، انجمن تحفظ حقوق شیعہ، اور دیگر اسلامی جماعتوں نے مل کر لڑی۔ قریہ قریہ،شہر شہر چلنے والی اس تحریک کو ریاستی جبر نے اگر چہ خاک وخون میں تڑپا کر ا کا برکو پس زنداں دھکیل دیا لیکن قادیانیت کے بہت پر جو ضرب براھیمی اس تحریک نے لگائی ، اس کے نتیجے میں یہ بہت کا فرٹھیک ہیں برس بعد منہ کے بل آن گرا۔

“عشق کے قیدی‘ اس خونچکاں تحریک کے پس منظر میں لکھا گیا، ایک کلاسیکل ناول ہے۔ تاریخ کے ڈھانچے پر منظر نگاری اور مکالمہ جاتی ملمع کاری سے تحریک کے خدوخال واضح کرنے کی ایک اپنی سی کوشش ہے ۔ 53 ابواب پرمشتمل یہ ناول تحریک ختم نبوت 1953 ءکامکمل احاطہ تو نہیں کرسکتا، البتہ قاری کو اس دور ابتلا میں لے جانے کی سعی ضرور کرتا ہے ۔ جب ” ختم نبوت زندہ باد” کہنا پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے مترادف تھا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک عام مسلمان آج بھی مرزائیت کو محض مسلک کا اختلاف سمجھ کر اس فتنے کی حشر سامانیوں سے ناواقف ہے ۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ عام مسلمانوں کو اس طائفے کے مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی شرور سے آگاہ کیا جاۓ ۔

کتاب کا نام: عشق کے قیدی

Written by Huzaifa Ishaq

22 September, 2022

You May Also Like…

0 Comments