انسان کو اپنے نفس کی حالت معلوم کرنے میں اکثر دھو کہ ہو جا تا ہے کہ بدخلق شخص بھی کبھی اپنے خلیق کو اور خوب سیرت سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو غصہ آ جا تا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اللہ واسطے غصہ آیا ہے جو خوب سیرتی کے لیے ہونا ہی چاہیے یا مثلا اپنی عبادتوں کو لوگوں پر ظاہر کرتا ہے اور نفس یہ دھوکہ دے کر مطمئن بنا دیتا ہے کہ تم نے اس غرض سے عبادتوں کا اظہار کیا ہے تاکہ لوگ اس کام کی رغبت اور اس میں تمہارا اقتداء کر یں یا مثلا عابد،زاہد متقی ، پابند صوم وصلوٰۃ بنتا ہے اور باوجود یکہ یہ سب ریاء اور اور دکھاوے کی نیت سے ہوتا ہے مگر نفس اس عیب کو ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ غرض اسی طرح یہ نفس امارہ بڑے بڑے دھو کے دیا کرتا ہے اور بدحالی میں مبتلا رکھنے کے لیے عیب کوخوبی بنا کر ظاہر کیا کرتا ہے۔

لہذا مناسب ہے کہ اپنی حالت کسی اپنے مخلص اور صاف گو دوست سے پوچھو کہ وہ تمہیں کیسا سمجھتا ہے چونکہ تمہاری خصلتوں اور عادتوں کا دوسرے لوگ اچھی طرح اندازہ کر سکتے ہیں کیونکہ جن سے سابقہ اور واسطہ پڑتارہے اور ان کو تمہارے اخلاق کے امتحان کا موقع ملے وہی اچھی طرح جانچ سکتے ہیں۔ پس اگر تمہارے دوست کو تمہاری خیر خواہی محفوظ ہوگی تو بے تکلف وہ تم کو بتادے گا کہ فلاں عادت تمہاری خراب ہے۔ پس اسی طرح کی اصلاح میں تم کو مشغول ہو جانا چاہیے اور اگر چند عادتیں خراب ظاہر ہوں تو اغلب کی فکر پہلے کرو اور جس کا نتیجہ زیادہ خراب نکل رہا ہو اس کا علاج سب سے مقدم سمجھو۔

کتاب کا  نام : اصلاحی کورس
صفحہ نمبر: 59