سفر ہندوستان کے متعلق تاثرات

Azeem Almi Shakhsiyat Jild 1

شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ
کے سفر ہندوستان کے متعلق تاثرات

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم تحریرفرماتے ہیں: مجھے اگر چہ سفر بہت پیش آتے ہیں ، لیکن عموما حرمین شریفین کے علاوہ کسی ایک ملک میں ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رہتا۔ ہندوستان کے لئے میں نے دو ہفتے مشکل سے نکالے تھے لیکن یہ دو ہفتے ایسا معلوم ہوا کہ پلک جھپکتے گذر گئے، اور انہوں نے دل و دماغ پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے ہیں کہ انہیں بھلانا مشکل ہے۔ یوں تو اللہ تعالی کے فضل و کرم اور بزرگوں کی دعاؤں سے جہاں کہیں جانا ہوتا ہے، ہر جگہ محبت اور عزت ملتی ہے، لیکن اس سفر کے دوران اپنے مسلمان بھائیوں سے عموما اور علماء کرام سے خصوصاً جو محبت ملی، وہ غیرمعمولی تھی ، اس بات کا اندازہ تو سالہا سال سے ہندوستان سے مسلسل آنے والے خطوط اور پیغامات سے مجھے پہلے بھی تھا  کہ وہاں ہمارے محبت کرنے والے بے شمار ہیں ، اور شاید دوسری ہر جگہ سے زیادہ ہیں لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کے تعلق خاطر کے لئے محبت کا لفظ بھی نا کافی ہوگا۔ وہ محبت نہیں، ایک والہانہ وارفتگی تھی جس کا مشاہدہ قدم قدم پر ہوا۔ میں یقینا اس والہانہ محبت کا مستحق نہیں تھا لیکن میدان کا حسن ظن خانے میں اپنے لئے فال نیک ضرور سمجھتا ہوں ،اور یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی مجھ میں ان پر خلوص حضرات کی برکت سے اس کی اہلیت بھی پیدا فرمادیں آمین۔

ہندوستان کے بیشتر اردو اخبارات نے ہمارے دیو بند اور بنگلور کے دوروں اور وہاں کے جلسوں کی خبر میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی تھیں اور متعدد حضرات نے اس پر کالم لکھے تھے، کئی اخبارات میں مختلف لوگوں نے تعارفی مضامین شائع کئے تھے، جن میں اس ناچیز بندے کے ساتھ غیر معمولی محبت اور مبالغہ آمیز تعریفوں کا اظہار فرمایا گیا تھا۔ اور بعض حضرات نے یہ فرمایا تھا کہ ہمیں دیوبند میں کسی ایک شخص کا ایسا استقبال اور اس کی آمد پر ایسا جشن جیسا سماں اس سے پہلے یاد نہیں ہے۔ اس کا سبب بظاہر یہی ہے کہ ان حضرات کو مجھ سے جو تعارف ہوا ، وہ میری کتابوں اور تحریروں کے ذریفے ہوا ، اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ وہاں نہ صرف علماء میں ، بلکہ پڑھے لکھے عام مسلمانوں میں بھی کتابوں کے مطالعے کا ذوق بہت زیادہ ہے۔ میری کتابوں میں سے اکثر وہاں کئی کئی اداروں نے شائع کر رکھی ہیں اور سیع پیمانے پر پڑھی گئی ہیں ،  خاص طور پر درس ترمذی ، تقریر ترمذی ، تکملہ فتح الملہم ، علوم القرآن ، فقہی مقالات ، انعام الباری حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور تاریخی حقائق ، اور اسلام اور جدید معیشت و تجارت کو علماء  کرام میں بہت پذیرائی ملی ہے ، اور ذکر وفکر، حجیت حدیث، آسان نیکیاں اور تقلید کی شرعی حیثیت کو عام مسلمانوں میں ۔ اصلاحی خطبات دونوں قسم کے حضرات میں رائج رہے ہیں اور بہت سے علماء کرام نے بتایا کہ وہ بکثرت جمعہ کے خطاب کی تیاری ان کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔خواتین میں بھی ان کے پڑھنے کا بہت رجحان ہے۔ اور شاید اصلاحی خطبات کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابیں میرے سفر نامے ہیں جو ”جہان دیدہ اور دنیا میرے آگے“ کے نام سے شائع ہوۓ ہیں ، بلکہ حیدرآباد دکن کے ایک صاحب مجاہد علی ایم اے نے میرے سفرناموں پر تبصرہ کر کے حیدرآباد یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ حیدرآباد سے یہ مقالہ بنگلور لے کر آۓ تھے، اور وہ مجھے بھی عنایت فرمایا ، اور یہ بھی بتایا کہ کوئی صاحب میری فقہی تالیفات پر پی ای ڈی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اب توضیح القرآن بھی دیوبند ، ڈابھیل ، دہلی اور کئی مقامات سے شائع ہوگئی ہے۔ حضرت مفتی احمد خان پوری صاحب مدظلہم نے اس کا ایک سیٹ مجھے تحفہ بھیجا ، اور معلوم ہوا  کہ وہ بھی علماء کرام اور عام مسلمانوں دونوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں میری انگریزی کتابیں پڑھی گئی ہیں ، اور میں نے اس سال کے شروع میں “ورلڈ اکنامک فورم ڈیروں کے لئے جو مقالہ لکھا تھا ، ان حضرات میں اس کا بھی خاصا چرچا نظر آیا۔

کتاب کا نام: عظیم عالمی شخصیت (جلد اول)
صفحہ نمبر: 607 تا 608

Written by Huzaifa Ishaq

27 September, 2022

You May Also Like…

0 Comments