مولانا اشرف علی تھانویؒ کا تعارف

تفسیر بیان القرآن اعلیٰ

مولانا اشرف علی تھانویؒ کا تعارف
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مختصر سوانح حیات، حالات و مصروفیات زندگی کا جائزہ

پیدائش وطن اور خاندان:۔
حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا وطن مالوف و مقام پیدائش تھانہ بھون ضلع مظفرنگر یوپی ہندوستان تھا ۔ آپکا یوم ولادت باسعادت چہار شنبہ 5 ربیع الاول 1280 ھجری ہے ۔ قصبہ میں آپکے آباؤ اجداد کا خاندان نہایت معزز وممتاز تھا ۔ آپکے والد ماجد منشی عبدالحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بڑے صاحب وجاھت، صاحب منصب اور صاحب جائیداد رئیس تھے اور بڑے اہل دل بزرگ بھی تھے ۔
تعلیم وتربیت
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ نسباً فاروقی، مذھباً حنفی تھے اور مسلکاً سلسلہ امدادیہ صابریہ چشتیہ سے وابستہ ہوکر منصب خلافت و رشد وہدایت پر فائز ہوئے ۔ حضرت کا بچپن وطن میں ہی گزرا اور وہیں ناظرہ و حفظ قرآن اور عربی وفارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ پھر علوم دینیہ کی تکمیل کے لئے ایک ہزار دو سو پچانوے ہجری میں دارالعلوم دیوبند میں تشریف لے گئے اور جید علماء اور مدرسین سے فیضان علوم حاصل کرکے ایک ہزار تین سو ایک ہجری میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ گویا اُدھر چودھویں صدی کا آغاز ہورہا تھا اور اِدھر احیاء وتجدید دین مبین کے لئے یہ مجدد العصر تیار ہورہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فضل عظیم تھا کہ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کو مدرسہ دارالعلوم دیوبند ایسی شہرہ آفاق اور مستند درس گاہ میں تحصیل علوم اور تکمیل درسیات کا موقع نصیب ہوا جہاں خوش قسمتی سے اُس وقت بڑے منتخب اور یگانہ عصر وجامع کمالات وصفات اہل اللہ اور اساتذہ کا مجمع تھا جن کے فیوض و برکات علمی وایمانی کا آج بھی عالم اسلام معترف ہے ۔ ان میں سے اکثر حضرات حاجی امداد اللہ شاہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کے سلسلہ سے وابستہ اور بعد انکے خلفائے راشدین میں تھے ۔ ایسے نورانی ماحول میں اور اُن حضرات کے فیض صحبت سے بعونہ تعالیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی باطنی صلاحیت واستعداد بھی تربیت پذیر ہوتی رہی ۔
اساتذہ کی خصوصی توجہ وتکمیل تعلیم:۔ ر
یوں تمام بزرگوں اور اساتذہ کی توجہات خصوصی کی سعادت حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کو حاصل تھی ۔ مگر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ اور مولانا یعقوب صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کو خاص طور پر حضرت کے ساتھ محبت وشفقت کا تعلق تھا ۔ اور حضرت رحمہ اللہ کو بھی ان بزرگوں کےساتھ نہایت والہانہ عقیدت و محبت تھی ۔ چنانچہ اکثر و بیشتر ان حضرات کا ذکر بڑے کیف و سرور سے فرمایا کرتے تھے ۔
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی دستاربندی 1301 ہجری میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کے متبرک ہاتھوں سے ہوئی ۔ اس سال مدرسہ دیوبند میں بڑا شاندار جلسہ منعقد ہوا ۔ اس موقع پر حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے چند رفقائے کرام کے ساتھ حضرت مولانا یعقوب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت ہم میں ایسی استعداد نہیں ہے کہ ہمیں دستار کی فضیلت عطا کی جائے ۔ اس سے مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی ۔
یہ سن کر مولانا کو جوش آگیا اور فرمایا”تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے یہاں چونکہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں انکے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نظر نہیں آتی اور ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ باہر جاؤ گے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی”۔
خدا کی قسم جہاں جاؤ گے تم ہی تم ہوگے ۔ باقی سارا میدان صاف ہے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔
باطنی علوم واعمال:۔
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے باطنی علوم واعمال کی تکمیل و تہذیب کے لئے بھی ایک یگانہ عصر شیخ المشائخ حضرت حاجی شاہ امداد اللہ صاحب تھانوی ثم مہاجر مکی قدس سرہ العزیز سے شرف تعلق عطا ہوا ۔ 1299 ھجری میں جب حضرت مولانا رشید احمد قدس سرہ حج کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے اُنکے ہاتھ ایک عریضہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں روانہ کیا جس میں استدعا کی کہ حضرت مولانا سے بیعت فرما لینے کے لئے سفارش فرمادیں ۔ حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا سے اس کا تذکرہ فرمایا اور پھر خود ہی ارشاد فرمایا”اچھا میں خود ہی اُنکو بیعت کئے لیتا ہوں”۔ اور حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی تحریر فرمایا:۔”میں نے خود آپکو بیعت کرلیاہے۔ مطمئن رہیں”۔
تدریس:۔
تیرہ سو ایک ہجری میں جب حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ علوم درسیہ سے فارغ ہوئے تھے اُسی زمانہ میں کانپور کے مدرسہ”فیض عام” میں ایک مدرس کی ضرورت تھی ۔ حضرت کو وہاں پر تدریس کے لئے بلایا گیا ۔ آپ کئی سال تک اس مدرسہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد مدرسہ کے نظم و نسق سے غیر مطمئن ہو کر تعلق منقطع کردیا ۔ پھر کچھ ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ کانپور کی جامع مسجد میں درس دینے لگے اور وہاں پر ایک مدرسہ قائم ہوگیا ۔ اس مدرسہ کا نام حضرت نے مسجد کی مناسبت سے مدرسہ جامع العلوم موسوم فرمایا ۔ یہ مدرسہ یوماً فیوماً ترقی کرتا رہا اور کچھ مدت بعد مشہور و معروف ہوگیا(اور اب تک بفضلہ تعالیٰ قائم ہے)۔
حضرت حاجی صاحب سے بیعت:۔
دوران قیام کانپور شوال 1301 ہجری میں ایسے اسباب و وسائل رونما ہوئے کہ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے والد صاحب کے ساتھ حج کے لئے گئے ۔ حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوئی اور دست بدست بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ حضرت حاجی صاحب نے اُنکو کچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رہنے کے لئے روکنا چاہا مگر والد صاحب نے مفارقت گوارا نہ کی اور اپنے ساتھ واپس لے آئے ۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا: اب کی بار حج کو آؤ تو کم از کم چھ ماہ کے قیام کے ارادے سے آنا ۔
خلافت و اجازت:۔
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ 1310 ہجری میں دوسری مرتبہ حج کے لئے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کے منشاء اور اُنکی خواہش کے مطابق وہاں پر چھ ماہ تک قیام کا ارادہ کرلیا ۔ حضرت حاجی صاحب اِسی موقع کے منتظر تھے چنانچہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ اور اپنے نوخیز طالب و سالک طریق کی فطری صلاحیت و استعداد اور جوہرِ قابل کا اندازہ کرتے رہے اور تمام علوم باطنی اور اسرار و رموزِ روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب مبارک پر وارد اور القاء فرمائے تھے ۔ حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اس قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہ خاص سے حضرت رحمہ اللہ کا سینہ مبارک دولت معارف وحقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ کا اور محبت نبی الرحمۃ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوز و گداز رگ و پے میں سرایت کر گیا ۔
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہوکر اور اپنے ذوق و مسلک سے تمام تر ہم آہنگی کے آثار نمایاں دیکھ کر اپنا جانشین بنا لیا ۔ اور باذن اللہ تعالیٰ خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی رہنمائی کے لئے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ جب حضرت کا وہاں سے واپسی کا وقت آیا تو بکمال محبت و شفقت گلے لگا کر فرمایا:”میاں اشرف علی! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی”۔ذالک فضل اللہ ۔
پھر ان دو وصیتوں کے ساتھ رخصت فرمایا:دیکھو ! وطن پہنچ کر تم کو باطنی کیفیات میں ایک حالت پیش آئے گی ۔ گھبرانا نہیں ۔ مجھ کو مطلع کرتے رہنا ۔ دوسرا یہ کہ جب مدرسہ کی ملازمت سے دلبرداشتہ ہو تو پھر وطن پہنچ کر ہماری خانقاہ اور مدرسہ میں توکلاً علی اللہ مقیم ہوجانا، تم سے ان شاء اللہ تعالیٰ خلق کثیر کو نفع پہنچے گا”۔
تھانہ بھون میں مستقل قیام:۔
حضرت نے دوران قیام کانپور درس و تدریس کے سلسلہ میں چودہ سال بسر کئے ۔ یہی زمانہ منجانب اللہ ان کے ذہنی و روحانی صلاحیت واستعداد کے نشو و نماکا اور علوم ظاہری وباطنی کے بار آور ہونے تھا ۔ اسی زمانہ میں تجربہ و مشاہدہ کی بناء پر عام مسلمانوں کی اصلاح عقائد واعمال کے لئے دین مبین کی تبلیغ واشاعت کا ایک بے اختیار جذبہ اور شدید تقاضہ دل میں پیدا ہورہا تھا ۔ جس سے حضرت ہمہ وقت متاثر رہنے لگے اور موجودہ انہماک و اشغال کی زندگی سے طبیعت گھبرانے لگی ۔ مستقبل میں پیش نظر مقاصد کے حصول کے لئے فراغت قلب و یکسوئی درکار تھی ۔ چنانچہ مدرسہ کی ملازمت ترک کرنے کا ارادہ کرلیا اور چند وجوہات و معذورات کو پیش کرکے آخر کار 1315 ہجری میں سبکدوشی حاصل کرلی ۔ اپنے وطن تھانہ بھون میں تشریف لے گئے اور اسکی اطلاع پیرومرشد کو کردی ۔ وہاں سے جواب آیا: “بہتر ہوا آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے ۔ امید ہے کہ آپ سے خلائق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو از سر نو آبادکر دیں ۔ میں ہر وقت آپکے حال میں دعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے”۔
قصبہ تھانہ بھون بڑے شہروں سے دور اور ذرائع آمد ورفت کے اعتباد سے اس زمانے میں بالکل الگ تھلگ پرانے زمانے کے رئیسوں کی ایک بستی تھی ۔ اس بستی سے بالکل باہر خانقاہ امدادیہ واقع تھی ۔ یہ وہی خانقاہ تھی جہاں سے کچھ زمانہ پہلے اللہ تعالیٰ کے تین برگزیدہ خلوت گزیں بندے درویشانہ زندگی بسر کررہے تھے ۔ یعنی حضرت حافظ ضامن شہید، مولانا شیخ محمد اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہم اللہ تعالیٰ ۔
تبلیغ، وعظ اور تصنیف و تالیف:۔
حضرت نے خانقاہ میں مقیم ہوکر شروع ہی سے اپنی آئندہ زندگی کے انضباط اور اہم خدمات دین کے انصرام کے لئے اپنے مذاق فطری اور نصب العین کے موافق ایک لائحہ عمل مقرر فرمایا اور اسی کے مطابق اپنے پیش نظر کام سرانجام دینے میں مشغول ہوگئے ۔ اس وقت آپکی عمر تخمیناً 35 سال تھی ۔ اس کے بعد یہ مجدد وقت اپنی مسند رشد وہدایت پر ایک نسخہ اکسیر اصلاح امت لے کر بیٹھا ۔
خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں توکلاً علی اللہ قیام پذیر ہونے کے بعد حضرت کی ساری زندگی تقریباً نصف صدی سے زائد تک تصنیف و تالیف میں اور مواعظ و ملفوظات ہی میں بسر ہوئی ۔ ملک اور بیرون ملک ہزاروں طالبین حق وسالکین طریق تعلیم و تربیت باطنی اور تزکیہ نفس سے فیض یاب اور بہرہ اندوز ہو کر بحمداللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے رہبر و مرشد بن گئے جن کا فیضان روحانی اب تک جاری و ساری ہے ۔
اسی زمانہ میں تقریباً چالیس سال تک حضرت کا ملک کے طول و عرض میں بڑی کثرت سے تبلیغی دوروں کا سلسلہ جاری رہا ۔ بڑے بڑے شہروں میں مشہور دینی درسگاہوں انگریزی تعلیم گاہوں اور اسلامی انجمنوں کے شاندار جلسوں میں بار بار حضرت کے کثرت سے بڑے انقلاب انگیز اصلاحی وعظ ہوئے ۔ بعض وقت وعظ کا یہ سلسلہ چار چار گھنٹوں تک جاری رہتا ہزاروں کی تعداد میں لوگ والہانہ انداز میں جمع ہوتے تھے اور دینی ودنیوی تقاضوں سے آگاہ ہو کر ایمانی تقویت حاصل کرتے ۔
حضرت کے مواعظ کی تاثیر:۔
حضرت کے مواعظ کا موضوع خاص طور پر عقائد کی اصلاح، اعمال کی درستی، معاملات کی اہمیت اور اخلاق کی پاکیزگی کے لئے ہوا کرتا تھا ۔ حضرت کی مساعی و جدوجہد کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کے ضمیر میں اسلامی شعور و شعائر کا جذبہ بیدار ہونے لگا اور حق و باطل کاصحیح معیار واضح ہوگیا ۔ اکثر و بیشتر مواعظ قلمبند ہوگئے اور طبع ہوکر شائع ہوئے اور بہت سے وعظ صرف قلمبند ہوکر محفوظ رہے اور شائع نہ ہوسکے تاہم شائع شدہ مواعظ کی تقریباً چارسو سے زائد تعداد ہے ۔
بے دینی کا انسداد:۔
اس زمانہ میں مسلمانوں میں دو بڑے خطرناک رجحانات شدت پکڑ رہے تھے ۔ ایک طرف تو انگریز کے برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے مغربی فلسفہ اور تہذیب ومعاشرت کا اثر پھیل رہا تھا جس سے عام طور پر تعلیم گاہیں، تجارتی ادارے اور سرکاری محکمے اور عوام متاثر ہورہے تھے ۔
حضرت نے اس فتنہ کے انسداد کے لئے بڑی شد و مد کے ساتھ تبلیغ شروع فرمائی اور اس موضوع پر سینکڑوں وعظ مختلف عنوان کے ساتھ بیان فرمائے ۔ متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں جو کثرت سے طبع ہو کر شائع ہوئیں ۔ مثلاً انتباہات مفیدہ، بہشتی زیور، فروع الایمان، اصلاح الخیال، حیاۃ المسلمین، آداب المعاشرت، اصلاح انقلاب امت، وعظ اسلام حقیقی، محاسن اسلام اور دعوۃ الحق وغیرہ بعونہ تعالیٰ شرق سے غرب تک تمام ملک میں ہر طبقہ کے مسلمانوں کو ان سے خاطر خواہ نفع اور رہنمائی حاصل ہوئی ۔
ہمہ گیر مصلحانہ تبلیغ کے اثرات:۔
اس ہمہ گیر مصلحانہ تبلیغ کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں میں دینی شعور اور اسلامی شعائر کی طرف رجحان پیدا ہونے لگا ۔ ہر طبقہ کے اکثر وبیشتر انگریزی تعلیم یافتہ لوگ خصوصاً بڑے بڑے سرکاری محکموں کے وکیل، بیرسٹر، جج، منصف، مجسٹریٹ کثرت سے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات سے متاثر ہوئے اور بعض تو حلقہ بگوش عقیدت ہوگئے اور بعض کی باطنی تعلیم و تربیت سے دینی حالت میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی کہ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے اُنکو اپنے “خلفائےمجازین صحبت” میں شامل فرمایا تھا۔ اس طرح حضرت نے اس دور میں ایسی زندہ مثال قائم فرمادی کہ مسلمان خواہ کسی بھی مسئلہ زندگی میں ہو اگر وہ چاہے تو پکا دیندار بن سکتا ہے ۔ یہ حضرت کی ایسی کرامت اور ایسا کارنامہ تبلیغ دین ہے جو ہر اعتبار سے انفرادیت کا درجہ رکھتا ہے ۔
تصوف میں آنے والی بدعات کا قلع قمع:۔
دوسری اہم چیز جو حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے دل و دماغ میں کاوش و اضطراب پیدا کررہی تھی وہ دورحاضر کی خانقاہی فقیری و درویشی کی ہیئت تھی ۔ جہاں کتاب و سنت سے بالکل بے گانہ اور بے نیاز ہو کر چند جوگیانہ رسوم اور طریقہ نفس کشی ہی کو واصل حق ہونے کا ذریعہ اور چند ہی ملحدانہ عقائد کو حاصل تصوف و سلوگ سمجھ لیا گیا تھا۔ یہ ایک عالمگیر فتنہ تھا جس میں اکثر دینی رجحان رکھنے والے نادان عوام بھی مبتلا ہورہے تھے الا ماشاء اللہ ۔ حضرت نے اپنی تمام مصلحانہ توجہ اور مجددانہ تبلیغ کی جد و جہد اسی طبقہ کے لئے بھی خاص طور پر مبذول فرمائی اور اس موضوع پر عقائد و اعمال کی اصلاح کے لئے متعدد کتابیں بھی تصنیف و تالیف فرمائیں ۔ سینکڑوں مواعظ و ملفوظات قلمبند کروا کر شائع فرمائے ۔ اور قرآن و حدیث کی غیر متزلزل سند کے ساتھ تمام باطل عقائد کا رد اور تمام غیر اسلامی رسم و روایات اور غیر معقول اور ملحدانہ رموز واسرار باطنی اور گمراہ کن اصلاحات کی تردید فرمائی اور نہایت نمایاں طور پر واضح کردیا کہ طریقت یعنی تصوف و سلوک یا دوسرے الفاظ میں تہذیب اخلاق وتزکیہ نفس دین مبین کا ایک اہم رکن ہے اور اس پر شریعت وسنت کے مطابق عمل کرنا ایک درجہ میں ہر مسلمان پر فرض وواجب ہے ۔
علوم دینیہ میں حضرت کی خدمات:۔
اسی طرح علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں فقہ کی توجہیات میں اور تصوف کی غایات میں جہاں جہاں خواص و عوام غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے ۔ وہاں اس مجدد عصر کی نظر اصلاح کارفرما نظر آتی ہے ۔ ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں ۔ یوں تو علوم دینیہ سے متعلق حضرت رحمہ اللہ تعالٰی کی سبھی تصانیف وتالیفات اپنے مضامین کی جامعیت و نافعیت اور انفرادیت کے اعتبار سے بے نظیر اور بے مثال ہیں ۔ لیکن حضرت کے مطبوعہ مواعظ و ملفوظات اور تربیت السالک علوم ظاہری اور باطنی ایک بحر بے کراں ہیں ۔ ان مواعظ و ملفوظات میں اکثر و بیشتر آیات قرآنی، احادیث نبویہ، فقہ اور طریقت کے متعلق بہت ہی نادر اور نازک و لطیف تفاسیر، تشریحات، تنقید و تدقیق بیان کی گئی ہیں ۔

از کتاب : بیان القرآن اعلیٰ تالیفات اشرفیہ

Written by Huzaifa Ishaq

5 December, 2022

You May Also Like…

0 Comments