مفتی شفیع صاحب کے متعلق اک خواب

Azeem Almi Shakhsiyat 2 Jild

مفتی شفیع صاحب کے متعلق اک خواب
مفتی تقی عثمانی صاحب کو ایک طالب علم نے خط میں لکھا

شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ لکھتے ہیں:۔
بندہ کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کو اللہ تعالیٰ نے جن ہمہ جہتی خدمات کے لیے موفق فرمایا وہ بہت کم کسی کے حصے میں آتی ہیں… ہم نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں کسی نہ کسی تحریری خدمت میں مشغول دیکھا… روزمرہ کی دینی و اصلاحی ڈاک کے علاوہ فتاویٰ کا سلسلہ سفر و حضر میں مسلسل جاری رہتا تھا… اس کے ساتھ ہی تالیف و تصنیف کسی حال میں نہیں رُکی… اور کمال یہ تھا کہ اہم اور تحقیقی کام کے بعد بھی اپنے کاموں کو انتہائی تواضع کے ساتھ ذکر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا…۔
اپنے بزرگوں سے سنی ہوئی باتوں کو آسان کرکے لکھ دیا ہے… غالباً اسی اخلاص اور تواضع کا نتیجہ تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی تالیفات کو قبول عام فرمایا اور تقریباً ہر تحریر شائع ہوکر نافع خاص و عام ہوئی اور اُمید ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی اس نے شرف قبولیت حاصل کیا ہوگا…۔
اس سلسلے میں ایک بشارت کا ذکر بھی نامناسب نہ ہوگا… آج سے کئی سال پہلے کوہاٹ سے وہاں کے ایک طالب علم مولانا اکرام اللہ کوہاٹی صاحب کا ایک خط مجھے موصول ہوا (جو اب یقینا تعلیم کی تکمیل کرچکے ہوں گے) اس خط کا متعلقہ حصہ مکتوب نگار ہی کے قلم سے درج ذیل ہے…۔
۔”میں درجہ خامسہ کا طالب علم ہوں اور دارالعلوم انجمن تعلیم القرآن کوہاٹ میں زیرتعلیم ہوں… حضرت یہ رسالہ آپ کی خدمت میں کوہاٹ سے ارسال کررہا ہوں… حضرت میں نے 12 اپریل کو رات کے وقت ایک خواب دیکھا جس میں آپ کے والد محترم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ کو دیکھا کہ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا پڑے اور پھر مجھے اپنی جانب بلا کر فرمانے لگے کہ بیٹا آپ اپنے تحصیل علم کے بارے میں پریشان نہ ہوں… اللہ کریم آپ کو باعمل علم عطا فرمائے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ میری اولاد کو میرا سلام پہنچا دینا اور محمد تقی صاحب کو یہ بات تاکید کے ساتھ کہہ دینا کہ آپ کے والد محترم کا یہ فرمان ہے کہ میری چھوڑی ہوئی میراث کو آخری دم تک مضبوطی سے پکڑے رہنا…۔(یعنی تصنیف کو) کیونکہ میری نجات کا ذریعہ تصنیف ہی بنا اور آپ بھی تصنیف کے کام کے واسطے سے ابلاغ دین کرتے رہنا…۔
پھر فرمانے لگے : میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سیکھنے کے لیے یا تو لاہور کے مدرسہ محمدیہ میں محمد حسن صاحب کے پاس جاکر یا فرزندانِ من کے مدرسہ میں جاکر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرو… اس کے بعد مجھے ایک قلم بطور تحفہ عنایت فرمایا اور فرمانے لگے کہ بیٹا یہ وہ قلم ہے جس سے میں نے “معارف القرآن” لکھی تھی… جب میں نے وہ قلم دیکھا تو اس میں معمولی سی سیاہی تھی اور ایک کالے رنگ کا جبہ دے کر فرمانے لگے کہ یہ وہ جبہ ہے جس کو میں نماز جمعہ کے لیے پہنا کرتا تھا… اس کے بعد مجھے گلے لگاکر واپس لوٹنے لگے تو جب میں نے ان کی طرف دیکھا تو بیت اللہ سامنے نظر آرہا تھا اور حضرت مفتی محمد شفیع نور اللہ مرقدہ بیت اللہ کی طرف روانہ تھے… جب میں نیند سے بیدار ہوا تو رات کے 2 بج کر 50 منٹ تھے… پھر بوجہ خوشی کے اللہ نے ہم کو بہت رونا نصیب فرمایا”۔
یہ حضرت قدس سرہ کی تالیفات کی نافعیت اور مقبولیت کے بارے میں ایک بشارت ہے اور اس سے ہم مستفیدین کے جذبہ استفادہ میں اضافہ ہونا چاہیے…۔

اقتباس از کتاب : عظیم عالمی شخصیت دو جلد صفحہ 72۔
سوانح حیات حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ
یہ کتاب آرڈر کرنے کے لئے نیچے دئیے گئے لنک
SHOP NOW
پر کلک کریں۔

Written by Huzaifa Ishaq

16 November, 2022

You May Also Like…

0 Comments