مفتی تقی عثمانی صاحب کا دلچسپ بچپن

Azeem Almi Shakhsiyat 2 Jild

مفتی تقی عثمانی صاحب کا دلچسپ بچپن
شرارت اور کھیل کود سے بھرپور واقعات

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے بچپن کے واقعات:۔
فرماتے ہیں: میں اپنے نو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا… اور شاید اس وجہ سے سب کا لاڈلا بھی… اب معلوم نہیں کہ یہ اس لاڈ پیار کا کرشمہ تھا… یا واقعی اس بات میں کوئی حقیقت بھی تھی کہ میرے والدین سے لے کر بہن بھائیوں تک سب کے سب اتنی چھوٹی سی عمر میں میری ذہانت کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے… اوردلیل میں میرے جو واقعات پیش کئے جاتے تھے… وہ مجھے اب تک اس طرح یاد ہیں جیسے وہ آج کی بات ہو… ان میں سے چند واقعات جن سے شاید آپ بھی لطف اندوز ہوں… اس وقت قلم پر آنے کے لئے بے تاب معلوم ہو رہے ہیں…۔
میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و رضوان کی بارشیں برسائے… وہ اگرچہ دارالعلوم دیو بند جیسے ادارے کے سب سے بڑے مفتی تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں علم و فضل کے جس مقام سے نوازا تھا… اُ س کا شہرہ پورے ملک میں تھا اور ان کے جاں نثار شاگرداُن کی ہر خدمت کو اپنے لئے بہت بڑا اعزاز سمجھتے تھے… لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزاج میں اس قدر تواضع اور سادگی تھی کہ گھر کا سودا سلف لینے کے لئے خود بازار جایا کرتے تھے… اور کبھی کبھی گھر کے استعمال کی کوئی چیز خریدتے… تو اُسے اپنے دامن ہی میں رکھ کر لے آتے تھے…۔
اُس وقت میں اس قابل ہو چکا تھا کہ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اُنگلی پکڑ کر ان کے ساتھ بازار جا سکوں… جب کبھی ایسا ہوتا تو واپسی میں وہ مجھے بھی میرے مطلب کی کوئی چیز دِلا دیتے… چاکلیٹوں اور ٹافیوں کا زمانہ ابھی نہیں آیا تھا… اس لئے ہماری پسندیدہ چیزیں کیا تھیں؟ بُھنے ہوئے چنے… مکئی کی کھیلیں… چاول کے مر مرے… ملائی کا برف (جو آئس کریم کی ایک دیسی شکل تھی)اور دیسی ہی قسم کی مٹھائیاں! ذرا ترقی ہوئی تو ایک پیسے میں ایک چاکلیٹ نما چھوٹی سی مٹھائی ملنے لگی تھی… جس کی شکل سنگترے کی ایک قاش جیسی ہوتی تھی اور اُسے ہم سنگترے کی مٹھائی کہا کرتے تھے…۔
اب خیال آتا ہے کہ اُس دور میں بچوں کی خواہشات تمام تر ایسی چیزوں سے متعلق ہوتی تھیں… جو صحت کے لئے فائدہ مند اور قدرتی خصوصیات کی حامل ہوتی تھیں اور ہر جگہ سستے داموں مل جایا کرتی تھیں… بچوں کو خوش کرنے کے لئے جو مضر صحت اور مہنگی چیزیں آج ایجاد ہوگئی ہیں ان کا کوئی تصور نہیں تھا…۔
 بہر کیف! حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب ہمیں اپنے ساتھ کہیں لے جاتے… تو مذکورہ بالا چیزوں میں سے کوئی چیز ہمیں بھی دِلا دیتے… اور اس کے نتیجے میں جانے آنے کی محنت بھی وصول ہو جاتی اور بازار کی سیر اُس کے علاوہ تھی…۔
لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہمیں کوئی چیز دِلا دینا خود اُنہی کی طرف سے ہوتا تھا… اس بات کا کوئی رواج نہیں تھا کہ اولاد اپنی طرف سے کوئی چیز دِلوانے کی فرمائش یا اس کا مطالبہ کرے…۔
چنانچہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بازار سے گھر کے لئے آلو لے کر جارہے تھے… میں بھی اُن کی اُنگلی پکڑے اُن کے ساتھ تھا… اتفاق سے اُس دن حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھے بازار سے کچھ دِلانا بھول گئے… ذہن تو اس طرف لگا ہوا ہی تھا کہ ہمیں بھی کوئی چیز ملنی چاہئے… لیکن جب نہ ملی اور بازار ختم ہو کر والد صاحب اُس گلی میں مڑنے لگے جس میں ہمارے مطلب کی کوئی دکان نہ تھی تو اندازہ ہوگیا کہ اب کچھ ملنے والا نہیں ہے… جیسا کہ پہلے عرض کیا… اپنی زبان سے فرمائش کرنا تو معمول اور رواج کے خلاف تھا… دوسری طرف حضرت والد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کو متوجہ کرنے کو بھی دل چاہ رہا تھا  آپ کچھ بھولے جا رہے ہیں… ان دو متضاد باتوں کا حل میرے اس بچپن کے ذہن نے یہ نکالا کہ میں نے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: ”ابا جی! میری گود میں آلو ہی ڈال دو“… حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ میری زبان سے یہ جملہ سُن کر بے ساختہ ہنس پڑے اور پھر آلو کے بجائے میرے مطلب کی کوئی چیز مجھے دِلا کر گھر واپس پہنچے… اور سب گھر والوں کو میری یہ بات سنائی جو بعد میں ایک لطیفہ بن گئی…۔
اسی طرح دیو بند میں بدھ کے دن ایک بازار لگا کرتا تھا جس میں آس پاس کے گاؤں والے اپنا اپنا سامان لا کر بیچا کرتے تھے… اور اس بازار میں عام طور پر گھریلو استعمال کی چیزیں سستے داموں مل جایا کرتی تھیں… اسے ”بدھ بازار“ کہا جاتا تھا… حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اُس بازار میں جاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے گئے… اب یاد نہیں کہ انہوں نے وہاں سے کیا چیزیں خریدیں… وہ بازار بھی زیادہ تر گھریلو استعمال کی اجناس کا بازار تھا… اور اس میں بچوں کے مطلب کی کوئی خاص چیز تھی بھی نہیں… چنانچہ اُس روز بھی انہوں نے مجھے کچھ نہ دِلایا…۔
یہاں تک کہ واپسی شروع ہوگئی… ایک آخری دکان میں چینی کے بنے ہوئے پتاشوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا… جب ہم وہاں سے گذرے تو مجھ سے نہ رہا گیا اورمیں نے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: ”ابا جی! پتاشوں کا بھاؤ ہی پوچھ لو“… اور اس طرح والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ان کا بھولا ہوا فریضہ یاد دِلا دیا…۔
ہمارا گھر دیوبند کے جس محلے میں تھا… اُسے بڑے بھائیوں کا محلہ کہا جاتا ہے… دراصل ہمارے جد امجد کی اولاد ”بڑے بھائی“ کہلاتی تھی… اور انہی کے نام پر محلے کا نام بھی مشہور ہوگیا تھا… ہمارے گھر کے صدر دروازے کی طرف (جو مشرق میں تھا) وہ چھوٹی سی سڑک تھی جو مسلمانوں کی آبادی کو ہندوؤں کی آبادی سے ممتاز کرتی تھی… اس سڑک پر ہمارے گھر کے دوسری طرف تمام تر ہندو آباد تھے لیکن اُن سے پڑوس کے اچھے تعلقات قائم تھے… ہمارے گھر کے سامنے اُسی سڑک پر ایک آٹے کا کارخانہ تھا جسے ہم ”انجن“ کہا کرتے تھے…۔
مجھے یاد ہے کہ اُس میں ایک مرتبہ آگ لگ گئی تو سب سے پہلے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کی مدد کو پہنچے اوردیر تک آگ بجھانے کے لئے پانی اور زمین سے کھودی ہوئی مٹی ڈالنے کے کام میں مصروف رہے… غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک ہمارے سارے اکابر کا خاص وصف تھا… میرے لئے یہ ایک دلچسپ منظر تھا اورمیں گھر سے یہ تماشا دیکھنے کے بعد اپنے بڑے بہن بھائیوں کے سامنے یہ منظر اپنی تتلائی ہوئی زبان میں بیان کرتا اور اپنے ہاتھ پاؤں کی حرکات سے وہ نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتا اور اس منظر کشی میں اپنے کسی بہن بھائی کے اُوپر اُس طرح چڑھ جاتا جیسے میں نے آگ بجھانے والوں کو انجن پر چڑھتے دیکھا تھا… میرے بہن بھائی مجھ سے فرمائش کر کے اس منظر کشی کا مطالبہ کیا کرتے تھے… میں تقریباً چھ سال کی عمر تک تتلائی ہوئی زبان بولتا رہا اور اُس کے بھی طرح طرح کے لطیفے خاندان میں مشہور ہوئے…۔
حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا ازہر شاہ قیصر رحمۃ اللہ علیہ جو عرصے تک ماہنامہ دارالعلوم دیو بند کے ایڈیٹر رہے… میرے سب سے بڑے بھائی جناب محمد زکی کیفی رحمۃ اللہ علیہ کے دوست تھے… اور اس حوالے سے ان کا ہمارے گھر میں بکثرت آنا جانا تھا… وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے… گھر والے مجھے پیار سے ”تقی“ کے بجائے ”تقّو“ کہا کرتے تھے اور مولانا ازہر صاحب بھی مجھے اسی نام سے پکارتے… اور اکثر مجھے گود میں اُٹھا کر ”تقّو… تقّو“ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے… دوسری طرف ان کا نام ”ازہر“ تھا جسے بگاڑ کر میں اپنی تتلائی ہوئی زبان میں ”اجہل“ کہتا تھا…۔
چنانچہ جب وہ دروازے پر دستک دیتے اور میں باہر نکل کر انہیں دیکھتا… تو بھائی جان کو آ کر بتاتا کہ: ”بھائی اجہل آئے ہیں“… مولانا ازہر صاحب رحمۃاللہ علیہ میری اس زبان کے بڑے مزے لیا کرتے تھے…۔
چنانچہ پاکستان آنے کے بعد جب میری ادارت میں ماہنامہ البلاغ جاری ہوا اور اُس کا پہلا شمارہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے خط میں لکھا (جو سالہا سال کے بعد میرے نام ان کا پہلا خط تھا) کہ: ”اب تو آپ مولانا محمد تقی عثمانی ہیں لیکن میرے نزدیک آپ وہی تقّو میاں ہیں جو مجھے اجہل کہا کرتے تھے“ اور خط کے آخر میں اپنے نام کی جگہ لکھا ”وہی آپ کا اجہل بھائی“…۔

اقتباس از کتاب: عظیم عالمی شخصیت صفحہ 147۔

Written by Huzaifa Ishaq

21 November, 2022

You May Also Like…

0 Comments