مفتی تقی عثمانی صاحب شاعر کیسے بنے؟

گوشہ تنہائی - اشعار مفتی تقی عثمانی

مفتی تقی عثمانی شاعر کیسے بنے ؟

شاعر اسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ میں کوئی باقاعدہ شاعر نہیں ہوں لیکن علمی اور نسبی طور پر ایسے خانوادوں سے وابستہ ہوں جو باقاعدہ شاعر نہ ہونے کے باوجود امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرح شعر کہتے رہے ہیں ۔ علمی طور پر اکابر علمائے دیوبند میں حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ سے لیکر علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ تک مجھے کوئی نام یاد نہیں آرہا جس نے کبھی نہ کبھی عربی، فارسی یا اردو میں شعر نہ کہے ہوں ۔ اور نسبی طور پر شعر و ادب کا ذوق میں نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے ورثے میں پایا ہے جو شاعر کی حیثیت سے معروف نہ ہونے کے باوجود عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ایسے اشعار کہتے رہے ہیں جنہیں سن کر جناب جگر مرادآبادی جیسے شاعر بھی میرے سامنے بیٹھ کر جھومتے تھے ۔

میرے بھائیوں میں جناب زکی کیفی مرحوم ایسے صاحب طرز شاعر تھے کہ “کیفیات” کے نام سے انکا مجموعہے کلام وقت کے بڑے بڑے شعراء سے خراج تحسین وصول کررہا ہے ۔ یہاں تک کہ میری بہنیں بھی کسی کالج یا یونیورسٹی پڑھے بغیر ایسے اشعار کہتی رہی ہیں جو آج کے گریجویٹس کی سمجھ میں آجائیں تو غنیمت ہے ۔

اتفاق سے جب میں نے عربی پڑھنی شروع کی تو ہمیں حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے استاذ ملے جو غزل کے بہترین شاعر تھے اور ہمیں درس کے دوران شاعری کے رموز سمجھایا کرتے تھے ۔

اس سارے ماحول کا نتیجہ یہ تھا کہ گویا شعر گھٹی میں پڑ گیا اور اچھے شعراء کا کلام سننے اور پڑھنے کا شوق بچپن کے اُس دور سے شروع ہوگیا جب شعر کی معنوی گہرائی تک پہنچنے کی قابلیت بھی نہ تھی ۔ لیکن طبیعت شعری وزن کے زیر و بم اور قافیہ وردیف کے درو بست ہی لطف لینے لگی تھی ۔

اسی شوق نے رفتہ رفتہ کچھ تک بندی پر آمادہ کردیا اور رفتہ رفتہ یہ تک بندی کبھی نظم اور کبھی کسی غزل کی شکل میں بدل گئی اور اپنے خشک مشاغل کے دوران ایسے لمحات بھی آجاتے جب طبیعت بے ساختہ نثر سے نظم کی طرف محوِ پرواز ہوجاتی ۔ کبھی کوئی اچھی غزل سن لیتا تو اُسی زمین میں خود بہ خود کچھ اشعار وارد ہوجاتے تھے ۔

لیکن یہ سب کچھ خود کلامی ہی تھی، نہ کبھی اپنے اشعار شائع کرنے کا خیال آیا، نہ مشاعروں میں سنانے کا، کبھی کبھی گھریلو محفلوں میں نظمیں سنانے کا اتفاق ضرورہوا لیکن شاید بیشتر اشعار ایسے ہیں جو کہیں سنانے کی نوبت نہ آئی ۔

لیکن اب کچھ عرصے سے جب سے مرحوم جنید جمشید نے میری تنہائی بعض واردات کو اپنے ترنم سے سجا کر عالمگیر بنادیا اس وقت سے دوستوں نے اصرار شروع کردیا کہ میں اپنی خودکلامی کو منظر عام پر لے آؤں ۔ رفتہ رفتہ یہ فرمائشیں اتنی بڑھ گئیں کہ مجھے اپنی روش چھوڑنی پڑی اور یہ چھوٹی سی کتاب گوشہ تنہائی آپکے سامنے ہے ۔

شعر گوئی کے لئے میں نے اپنا تخلص آسی رکھا تھا اور بکثرت نظموں اور غزلوں میں یہی استعمال ہوا ہے لیکن کہیں کہیں تقی بھی تخلص کے طور پر آگیا ہے ۔

میرے بھتیجیے اور حضرت زکی کیفی رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند سعود عثمانی سلمہ اللہ تعالیٰ اس وقت ماشاء اللہ شاعری کے عروج پر ہیں ۔ اور انکا اچھوتا طرزِ بیان نثر اور نظم دونوں میں اپنا لوہا منوا رہا ہے ۔ میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اپنے غیر مرتب اور منتشر اشعار کو اُنکی نظر ثانی کے بغیر شائع نہ کروں ۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف نظر ثانی کی بلکہ اس کتاب کو مرتب کرنے کا سہرا اُنہی کے سر ہے ۔ اُن کے مشوروں سے بھی میں نے فائدے اٹھائے ۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں دونوں جہانوں میں ترقی عطا فرمائے ۔ آمین

از کتاب: گوشہ تنہائی صفحہ 17

Written by Huzaifa Ishaq

17 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments