مسلمانوں کا خلیفہ کیساہو؟

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

خلافت کا بوجھ کون اٹھائے؟ یعنی خلیفہ میں کن صفات کا ہونا ضروری ہے

حضرت عاصمؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیماری میں لوگوں کو جمع کیا پھر ایک آدمی کو حکم دیا جو آپ کو اٹھا کر منبر پر لے گیا۔
چنانچہ یہ آپ کا آخری بیان تھا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:۔
۔” اے لوگو! دنیا سے بچ کر رہو اور اس پر بھروسہ نہ کرو۔ یہ بہت دھوکہ باز ہے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دو اور اس سے محبت کرو کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے محبت کرنے سے ہی دوسرے سے بغض پیدا ہوتا ہے اور ہمارے تمام معاملات امر خلافت کے تابع ہیں۔ اس امر خلافت کے آخری حصہ کی اصلاح اسی طریقہ سے ہو گی جس طریقہ سے اس کے ابتدائی حصہ کی ہوئی تھی۔ اس امر خلافت کا بوجھ وہی اٹھا سکتا ہے جو تم میں زیادہ طاقت والا ہو اور اپنے نفس پر سب سے زیادہ قابو پانے والا ہو۔ سختی کے موقع پر خوب سخت اور نرمی کے موقع پر خوب نرم ہواور شوریٰ والے اہل رائے کی رائے کو خوب جانتا ہو۔ لایعنی میں مشغول نہ ہوتا ہو۔ جو بات ابھی پیش نہ آئی ہو اس کی وجہ سے غمگین و پریشان نہ ہو۔ علم سیکھنے سے شرماتا نہ ہو۔ اچانک پیش آ جانے والے کام سے گھبراتا نہ ہو۔ مال کے سنبھالنے میں خوب مضبوط ہو اور غصہ میں آ کر کمی زیادتی کر کے مال میں خیانت بالکل نہ کرے اور آئندہ پیش آنے والے امور کے لئے تیار رکھے اور احتیا اور چوکنا پن اور اطاعت خداوندی سے برقت آراستہ ہو اور ان تمام صفات کے حامل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔”۔

یہ بات فرما کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ (اخرجہ ابن عساکر کذا فی کنزالعمال 147/3)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت کیا کرتا تھا ان سے ڈرا بھی بہت کرتا تھا اور ان کی تعظیم بھی بہت کیا کرتا تھا۔ میں ایک دن ان کی خدمت میں ان کے گھر حاضر ہوا اور وہ اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اتنے زور سے سانس لیا کہ میں سمجھا کہ ان کی جان نکل گئی ہے۔
پھر انہوں نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر بہت لمبا سانس لیا۔ میں نے ہمت سے کام لیا اور کہا میں ان سے اس بارے میں ضرور پوچھوں گا۔ چنانچہ میں نے کہا اے امیر المؤمنین! آپ نے کسی بڑی پریشانی کی وجہ سے اتنا لمبا سانس لیا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں اللہ کی قسم! مجھے سخت پریشانی ہے اور وہ یہ ہے کہ مجھے کوئی بھی امر خلافت کا اہل نہیں مل رہا ہے۔
پھر فرمایا شاید تم یوں کہتے ہو گے کہ تمہارے ساتھی یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ اس امر خلافت کے اہل ہیں۔

میں نے کہا اے امیر المؤمنین! انہیں ہجرت کی سعادت بھی حاصل ہے۔
اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ بھی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی ہیں کیا وہ ان تمام امور کی وجہ سے خلافت کے اہل نہیں ہیں؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم جیسے کہہ رہے ہو وہ ایسے ہی ہیں لیکن ان کی طبیعت میں مزاح اور دل لگی ہے۔ پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ فرماتے رہے۔
پھر یہ فرمایا کہ خلافت کی ذمہ داری صرف وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو نرم ہو لیکن کمزور نہ ہو اور مضبوط ہو لیکن سخت نہ ہو اور سخی ہو لیکن فضول خرچ نہ ہو اور احتیاط سے خرچ کرنے والا ہو لیکن کنجوس نہ ہو اور پھر فرمایا اس خلافت کو سنبھالنے کی طاقت صرف وہی آدمی رکھتا ہے جو بدلہ لینے کے لئے دوسروں سے حسن سلوک نہ کرے اور ریاکاروں کی مشابہت اختیار نہ کرے اور لالچ میں نہ پڑے اور اللہ کی طرف سے سونپی ہوئی خلافت کی ذمہ داری کی طاقت صرف وہی آدمی رکھتا ہے جو اپنی زبان سے ایسی بات نہ کہے جس کی وجہ سے اپنا عزم توڑنا پڑے اور اپنی جماعت کے خلاف بھی حق کا فیصلہ کر سکے۔ (عند ابن عساکر کذا فی الکنز 158/3،159)

حضرت سفیان بن ابی العوجاءؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا خدا کی قسم! مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ ہوں؟ اگر میں بادشاہ ہوں تو یہ بڑے (خطرے کی) بات ہے۔
۔(حاضرین میں سے) ایک نے کہا ان دونوں میں تو بڑا فرق ہے۔ خلیفہ تو ہر چیز حق کی وجہ سے لیتا ہے اور پھر اسے حق میں ہی خرچ کرتا ہے اور اللہ کے فضل سے آپ ایسے ہی ہیں اور بادشاہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے۔
ایک سے زبردستی لیتا ہے اوردوسرے کو ناحق دیتا ہے۔ (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے۔ (اخرجہ ابن سعد 221/3)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 463 – 464

Written by Huzaifa Ishaq

26 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments