مدینہ کی طرف ہجرت کے واقعات

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

مدینہ کی طرف ہجرت کے واقعات
عورتوں اور بچوں کی ہجرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کی ہجرت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو آپ ہمیں اور اپنی بیٹیوں کو پیچھے (مکہ میں) چھوڑ گئے تھے۔
جب آپ کو (مدینہ میں) قرار حاصل ہو گیا تو آپ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کو بھیجا اور ان کے ساتھ اپنے غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور ان دونوں کو دو اونٹ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے لے کر پانچ سو درہم اس لئے دے دئیے تھے کہ ضرورت پڑے تو ان سے اور سواری کے جانور خرید لیں اور ان دونوں کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن اریقط رضی اللہ عنہما کو دو یا تین اونٹ دے کر بھیجا اور حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کو یہ خط لکھا کہ میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کو اور مجھے اور میری بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا جو کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ان کو ان سواریوں پر بٹھا کر روانہ کر دے۔
یہ تینوں حضرات (مدینہ سے) اکٹھے روانہ ہوئے اور جب یہ حضرات قدید پہنچے تو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما نے ان پانچ سو درہم کے تین اونٹ خریدے پھر یہ سب اکٹھے مکہ میں داخل ہوئے۔
ان کی حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی وہ بھی ہجرت کرنا چاہتے تھے۔
چنانچہ یہ سب اکٹھے (مکہ سے) روانہ ہوئے۔ حضرت زید اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم اور حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہن کو لے کر چلے اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضرت ام ایمن اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہما کو بھی ایک اونٹ پر سوار کیا۔
جب ہم مقام بیداء پہنچے تو میرا اونٹ بدک گیا۔ میں ہودج میں تھی اور میرے ساتھ میری والدہ بھی اس ہودج میں تھیں میری والدہ کہنے لگیں ہائے بیٹی۔
ہائے دلہن (کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہجرت سے پہلے ہو چکا تھا) آخر کار ہمارا اونٹ پکڑا گیا اور اس وقت وہ ہرشیٰ گھاٹی پار کر چکا تھا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہمیں بچالیا پھر ہم مدینہ پہنچ گئے۔ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ٹھہرے۔
اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد بنا رہے تھے اور مسجد کے اردگرد گھر تعمیر فرما رہے تھے پھر ان گھروں میں اپنے گھر والوں کو ٹھہرایا۔
پھر چند دن ہم ٹھہرے رہے آگے لمبی حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے بارے میں ذکر کی ہے۔ (اخرجہ ابن عبدالبر کذا فی الاستیعاب 450/4)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں (ہجرت کی) تیاری کر رہی تھی کہ مجھ سے ہند بنت عتبہ ملی اور وہ کہنے لگی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی! (تمہارا کیا خیال ہے) کیا مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ تم اپنے باپ کے پاس جانا چاہتی ہو؟
میں نے کہا میرا تو ایسا ارادہ نہیں ہے۔
اس نے کہا اے میرے چچا کی بیٹی! ایسا نہ کرو۔ اگر تمہیں اپنے سفر کے لئے کسی سامان کی ضرورت ہے یا اپنے باپ تک پہنچنے کے لئے کچھ مال کی ضرورت ہے تو میں تمہاری یہ ضرورت پوری کر سکتی ہوں، مجھ سے مت چھپاؤ کیونکہ مردوں کا جو آپس میں جھگڑا ہے وہ عورتوں کے درمیان نہیں ہے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرا خیال یہی ہے کہ انہوں نے یہ ساری باتیں کرنے کے لئے کہی تھیں لیکن میں اس سے ڈر گئی۔ اس لئے میں نے اس کے سامنے ہجرت کے ارادے کا انکار ہی کیا۔ حضرت ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا(ہجرت کی) تیاری کرتی رہیں۔
جب وہ اس تیاری سے فارغ ہوئیں تو ان کے دیور کنانہ بن ربیع ان کے پاس اونٹ لائے یہ اس اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ کنانہ نے اپنی کمان اور ترکش لی۔ اور دن کی روشنی میں ان کے اونٹ کو آگے سے پکڑ کر لے چلے اور یہ اپنے ہودج میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ قریش کے لوگوں میں (ان کے جانے) کا چرچا ہوا۔
چنانچہ وہ لوگ ان کی تلاش میں نکل پڑے۔ اور مقام ذی طویٰ میں انہیں پالیا۔ اور ہبار بن اسود فہری سب سے پہلے ان تک پہنچا۔ ہبار نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو نیزے سے ڈرایا یہ ہودج میں تھیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ امید سے تھیں۔ چنانچہ ان کا حمل ساقط ہو گیا۔
ان کے دیور کنانہ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کرا پنے ترکش میں سے سارے تیر نکال کر سامنے ڈال لئے اور پھر کہا تم میں سے جو آدمی بھی میرے قریب آئے گا میں اس میں ایک تیر ضرور پیوست کروں گا۔ چنانچہ وہ لوگ ان سے پیچھے ہٹ گئے اور ابوسفیان قریش کے بڑے لوگوں کو لے آئے۔
اور انہوں نے کہا اے آدمی! ذرا اپنی تیر اندازی روکو ہم تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ رک گئے۔ ابوسفیان آگے آ کر ان کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا۔
تم نے ٹھیک نہیں کیا کہ تم اس عورت کو علی الاعلان سب کے سامنے لے کر چلے ہو اور تم جانتے ہی ہو کہ (ان کے والد) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہمیں کتنی مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں۔ جب تم ان کی بیٹی کو علی الاعلان تمام لوگوں کے سامنے ہمارے درمیان میں سے لے کر جاؤ گے تو لوگ یوں سمجھیں گے کہ یہ سب ہماری ذلت اور کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے (کہ ان کی بیٹی سب کے سامنے یوں چلی گئی ہے) اور میری زندگی کی قسم! ہمیں ان کو ان کے باپ سے روکنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہم ان سے کوئی بدلہ لینا چاہتے ہیں۔
اس لئے اب تو تم اس عورت کو واپس لے جاؤ یہاں تک کہ جب یہ شوروشغب ٹھنڈا پڑ جائے گا اور لوگ یوں کہنے لگیں کہ ہم نے ان کی بیٹی کو واپس کروا یا ہے تو پھر چپکے سے اسے لے جانا اور اس کے باپ کے پاس پہنچا دینا۔
چنانچہ کنانہ نے ایسا ہی کیا۔ (اخرجہ ابن اسحاق کذا فی البدایۃ 330/3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ سے کنانہ یا ابن کنانہ کے ساتھ روانہ ہوئیں مکہ والے ان کی تلاش میں نکل پڑے۔
چنانچہ ہبار بن اسود ان تک پہنچ گیا۔ اور اپنا نیزہ ان کے اونٹ کو مارتا رہا یہاں تک کہ ان کو نیچے گرا دیا جس سے ان کا حمل ساقط ہو گیا۔ انہوں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور انہیں اٹھا کر لایا گیا۔ بنو ہاشم اور بنو امیہ کا ان کے بارے میں آپس میں جھگڑا ہو گیا۔
بنو امیہ کہتے تھے کہ ہم ان کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ وہ اس کے چچا زاد بھائی حضرت ابو العاص کے نکاح میں تھیں۔ آخر میں یہ ہند بنت عتبہ بن ربیعہ کے پاس رہتی تھیں اور وہ ان سے کہا کرتی تھی کہ یہ سب تمہارے باپ (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کی وجہ سے ہوا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کو فرمایا کہ تم (مکہ) جا کر زینب کو لے نہیں آتے؟ انہوں نے کہا ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا تم میری انگوٹھی لو یہ ان کو (بطور نشانی کے) دے دینا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ (مدینہ سے)چل دئیے اور (حضرت زینب رضی اللہ عنہا تک چپکے سے بات پہنچانے کی) مختلف تدبیریں اختیار کرتے رہے۔
چنانچہ ان کی ایک چرواہے سے ملاقات ہوئی اس سے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو؟ اس نے کہا ابوالعاص کا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے پوچھا، یہ بکریاں کس کی ہیں؟ اس نے کہا زینب بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ (اسے مانوس کرنے کے لئے) کچھ دیر اس کے ساتھ چلتے رہے۔
پھر اس سے کہا کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تم کو میں کوئی چیز دوں وہ تم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو پہنچا دو اور اس کا کسی سے تذکرہ نہ کرو؟ اس نے کہا ہاں۔ چنانچہ اسے وہ انگوٹھی دے دی جسے حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے پہچان لیا۔ انہوں نے چرواہے سے پوچھا تمہیں یہ انگوٹھی کس نے دی؟
اس نے کہا ایک آدمی نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا اس آدمی کو تم نے کہاں چھوڑا؟ اس نے کہا فلاں جگہ۔ پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا خاموش ہو گئیں جب رات ہوئی تو چپکے سے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی طرف چل پڑیں جب یہ ان کے پاس پہنچیں تو ان سے حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا تم میرے آگے اونٹ پر سوار ہو جاؤ۔ انہوں نے کہا تم میرے آگے سوار ہوجاؤ۔
چنانچہ آگے حضرت زید رضی اللہ عنہ سوار ہوئے اور یہ ان کے پیچھے بیٹھیں (اس وقت تک پردہ فرض نہیں ہوا تھا) اور مدینہ پہنچ گئیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میری بیٹیوں میں سے یہ سب سے اچھی بیٹی ہے جسے میری وجہ سے بہت تکلیف اٹھانی پڑی۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 286 – 289

Written by Huzaifa Ishaq

24 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments