غیبت کی مذمت اور اسکا گناہ

مسنون زندگی قدم بہ قدم

غیبت کی مذمت اور اسکا گناہ

۔1۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی بددین منافق کے شر سے کسی بندۂ مؤمن کی حمایت کی مثلاً کسی شریر بددین نے کسی مؤمن مسلمان پر کوئی الزام لگایا یا اس کو برا بھلا کہا اور کسی باتوفیق مسلمان نے اس کی مدافعت کی تو اللہ تعالیٰ قیامت میں ایک فرشتہ مقرر فرمائیں گے جو اس کے جسم کو آتش دوزخ سے بچائے گا اور جس نے کسی مسلمان کو بدنام کرنے اور اس کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لیے اس پر کوئی الزام لگایا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کے پل پر قید کردیں گے، اس وقت تک کے لیے کہ وہ اپنے الزام کی گندگی سے پاک ہو جائے۔ (ابوداؤد، کتاب الادب)

۔2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میں کسی شخص کی نقل اُتاروں اگرچہ میرے لیے ایسا اور ایسا ہی کیوں نہ ہو (یعنی اگر کوئی مجھے بے حساب مال و زر بھی دے تو بھی میں کسی کی نقل اُتارنا گوارا نہ کروں)۔ کسی کی نقل اُتارنا خواہ قولی ہو یا فعلی جیسے کسی لنگڑے کی چال بناکر چلنا جس سے اس کی تحقیر ہوتی ہو حرام اور غیبت محرمہ میں داخل ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الادب)

۔3۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اگر اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت سنے تو وہ اپنے غائب بھائی کی طرف سے مدافعت کرے لیکن اگر اس کی مدافعت پر قدرت نہ ہو تو کم از کم اس کے سننے سے پرہیز کرے کیونکہ غیبت کا قصداً سننا بھی ایسا ہی ہے جیسے کہ خود غیبت کرنا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب)

۔4۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا یہ کیسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص زنا کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے تو اس کا گناہ معاف ہو جاتا ہے اور غیبت کرنے والے کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی غیبت کی گئی۔
اس سے بھی معاف کرانا ضروری ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ غیبت ایک ایسا گناہ ہے جس میں حق تعالیٰ کی بھی نافرمانی ہے اور حق العبد بھی ضائع ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے بھی توبہ کرنا چاہیے اور جس کی غیبت کی گئی ہو اس سے بھی معاف کرانا ضروری ہے۔

۔5۔ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ غیبت کی خبر جب تک صاحب غیبت کو نہ پہنچے اس وقت تک وہ حق العباد نہیں ہوتی اس لیے اس سے معافی کی ضرورت نہیں مگر جس شخص کے سامنے غیبت کی تھی اس کے سامنے اپنی تکذیب یا اپنے گناہ کا اقرار کرنا ضروری ہے۔

۔6۔ اگر وہ شخص جس کی غیبت کی گئی وہ مرگیا اور اس کا اتہ پتہ نہیں تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعائے مغفرت کرے اور یوں کہے: ‘‘اَللّٰھم اغفرلنا ولہ’’ …… یااللہ! ہمارے اور اس کے گناہوں کو معاف فرما۔

۔7۔ بچے، مجنون اور کافر ذمی کی غیبت بھی حرام ہے کیونکہ ان کو ایذاء دینا بھی حرام ہے اور کافر حربی اگرچہ ان کو ایذاء دینا حرام نہیں مگر وقت ضائع کرنے کی وجہ سے غیبت مکروہ ہے۔
کافر ذمی کی غیبت بھی حرام ہے کیونکہ ان کو ایذاء دینا بھی حرام ہے اور کافر حربی اگرچہ ان کو ایذاء دینا حرام نہیں مگر وقت ضائع کرنے کی وجہ سے غیبت مکروہ ہے۔

۔8۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ آیت میں جو غیبت کی عام حرمت کا حکم ہے اس سے بعض حالات مستثنیٰ ہیں۔ مثلاً کوئی شرعی صورت لاحق ہو جیسے کسی ظالم کی شکایت کسی ایسے شخص کے سامنے کرنا جو اس کے ظلم کو دفع کرسکے (یا حکومت کو اطلاع کرنا) یا کسی کی اولاد بیوی کی شکایت اس کے باپ اور شوہر سے کرنا جو ان کی اصلاح کرسکے۔
نکاح کے مشورے کے وقت کسی کا نسب یا صحیح حال بیان کرنا یا کوئی مسلمان کسی سے امانت و شرکت وغیرہ کا کوئی معاملہ کرنا چاہتا ہے تو اس مسلمان کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے اس شخص کا اصل حال بیان کرنا یا کسی واقعہ کے متعلق فتویٰ حاصل کرنے کے لیے صورت واقعہ کا اظہار کرنا یا کسی معاملے کے متعلق مشورہ لینے کے لیے اس کا حال ذکر کرنا وغیرہ۔
ان سب میں امرِ ضروری یہ ہے کہ کسی کی برائی اور عیب ذکر کرنے سے اس کی تحقیر مقصود نہ ہو بلکہ کسی ضرورت و اصلاح اور مجبوری سے ذکر حقیقت حال بیان کی گئی ہو تو جائز ہے۔ (معارف القرآن)

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 410 تا 411

Written by Huzaifa Ishaq

15 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments